پاکستان اور افغانستان کوالزام تراشی کی بجائے شکوک شبہات اور بد اعتمادی کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے شاہ محمود قریشی۔۔۔ افغان حکومت سرحد پر نقل و حرکت روکنے کیلئے اپنی طرف بھی فوجیوں وچیک پو سٹوں میں اضافہ اور عالمی برادری غیر مشروط تعاون کرے۔ قبائلی عمائدین سے بات چیت کی جا رہی ہے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے کوئی بات نہیں ہوگی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب

جمعرات 10 جولائی 2008 13:24

نیویارک (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین10جولائی2008 ) پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس امر پر زور دیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کوالزام تراشی کی بجائے شکوک شبہات اور بد اعتمادی کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیے  دونوں ممالک مل کر ہی خطے میں امن  استحکام اور ترقی کا مقصد حاصل کرسکتے ہیں  اپنی سر زمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہ دیں اور افغان حکومت سرحد پر نقل و حرکت روکنے کیلئے اپنی طرف بھی فوجیوں کی تعداد اور چیک پو سٹوں میں اضافہ کرے اور عالمی برادری دونوں ملکوں کے ساتھ غیر مشروط تعاون کرے اور یقین دلایا ہے کہ پاکستان سرحدی علاقوں میں جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جہاں امن و استحکام کے لئے قبائلی عمائدین سے بات چیت کی جا رہی ہے لیکن دہشت گردوں اور انتہاپسندوں سے ہرگز کوئی بات چیت نہیں ہوگی بلکہ اگر انہوں نے کوئی خلاف ورزی کی تو پوری طاقت سے نمٹیں گے گزشتہ روز افغانستان کی صورتحال پر غور کیلئے بلائے گئے سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی نئی جمہوری حکومت کو سیاسی‘ اقتصادی اور سلامتی کے چیلنج ورثے میں ملے ہیں جن پر ہم توجہ دے رہے ہیں- لیکن دہشت گردی سے درپیش خطرہ ان چیلنجوں میں سب سے زیادہ شدید ہے-دہشت گردی اور انتہا پسندانہ تشدد پاکستان اور افغانستان دونوں کیلئے مشترکہ خطرہ ہیں ہم نے کابل میں بھارتی سفارتخانے پر ہونے والے حملے کی مذمت کی ہے اور اس میں ہونیو الے ناقابل تلافی جانی نقصان پر ہمیں گہرا افسوس ہے-خود کش حملے قطعی طور پر ناقابل قبول ہیں-سفارتی مشنوں پر حملے کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے-خود کش حملوں سے عام آدمی متاثر ہوتے ہیں پاکستان ان حملوں کا شکار ہے اور حال ہی میں کراچی میں بھی یہ حملے کئے گئے-ہم سلامتی کونسل کی طرف سے ان حملوں کی مذمت کا خیر مقدم کرتے ہیں-انہوں نے کہا کہ میں سیکرٹری جنرل کے افغانستان کے بارے میں خصوصی نمائندے کی طرف سے دی جانے والی بریفنگ پر ان کا شکر گزار ہوں اور ہم سلامتی کونسل کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں پاکستان رابطے کے حوالے سے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کی حمایت کرتا ہے جو اس کے مینڈیٹ کے عین مطابق ہے-دونوں ممالک میں جمہوری انداز سے منتخب کی جانے والی حکومتیں رابطے اور تعاون جاری رکھیں گی-بون سمجھوتے کے بعد افغانستان کی صورتحال میں اہم پیشرفت ہوئی ہے ہمیں ان کامیابیوں کو مزید مستحکم کرنا اور درپیش چیلنجوں کا موثر انداز میں مقابلہ کرنا ہے-جن میں دہشت گردی‘تشدد اور عسکریت پسندوں کی مداخلت شامل ہے-افغانستان کے مختلف علاقوں میں جاری تشدد اور عدم سلامتی کی صورتحال پیچیدہ ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں جن کے طالبان‘القاعدہ‘افغانستان میں موجود جنگجو‘مختلف گروپوں کی آپس میں منافرت اور مجرمانہ سرگرمیاں شامل ہیں جن میں منشیات کی تجارت خاص طورپر قابل ذکر ہے-افغانستان میں امن اور استحکام پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے اور امن کے ذریعے ہی ہم ملکر ترقی کر سکتے ہیں-امن کے قیام سے دونوں ملکوں کو تجارتی اور اقتصادی تعاون کا مرکز بنایا جا سکتا ہے اور اس کے ذریعے جنوبی ایشیاء‘وسطی ایشیا‘چین اور خلیجی ممالک کے درمیان تعاون بڑھایا جا سکتا ہے-افغانستان میں بدامنی سے پاکستانی عوام بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور آج بھی تیس لاکھ مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں-افغانستان کی صورتحال کے باعث پاکستان میں منشیات اور ہتھیاروں کا پھیلاؤ ہوا اور ہمارے قبائلی علاقے جو پہلے پرامن تھے گزشتہ تیس سالہ صورتحال کے باعث آج شعلوں میں گرے ہوئے ہیں-خاص طور پر 2001ء کے بعد جب القاعدہ اور طالبان عناصر پاکستان میں داخل ہوئے تو صورتحال مزید خراب ہوئی- انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور القاعدہ و طالبان کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل کی گئیں-ہمارے سب سے زیادہ فوجی شہید ہوئے لیکن ہمارے عزم کو شکست نہیں دی جا سکی-افغانستان میں جاری صورتحال کے خاتمے سے سرحدی علاقوں میں بھی معمول کی صورتحال بحال ہو سکتی ہے-قبائلی علاقوں میں ترقی اور حکومت کے دیگر اقدامات کے مثبت ا ثرات سامنے آئے ہیں-انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سرحد پر نقل و حرکت روکنے کیلئے بہت سے اقدامات کئے جس کے نتیجے میں پاکستان کی طرف صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن ان اقدامات کے بعد کچھ القاعدہ اور طالبان عناصر نے پاکستان میں صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی اور کئی خود کش حملے کرائے گئے جس کے نتیجے میں اب تک 2000 شہری اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں-پاکستان نے محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قائد کا نقصان برداشت کیا جو ایک عالمی شخصیت تھیں-اسلام آباد میں حالیہ حملہ اس امر کی نشاندہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں سے درپیش خطرات ختم نہیں ہوئے-18فروری کے انتخابات میں عوام نے بڑی سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ دیا جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ عوام دہشت گرد اور انتہا پسند عناصر کی مخالفت کرتے ہیں-نئی جمہوری حکومت عوام کے احساسات کو سمجھتی ہے اور ہم نے خطرات سے نمٹنے کیلئے نئی جامع حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت ہم انتہا پسندی اور تشدد پر قابو پانے کیلئے سیاسی مذاکرات ‘سماجی واقتصادی ترقی اور ضرورت کے تحت طاقت کے استعمال پر توجہ دی جا رہی ہے-ہم افغانستان اور اتحادی فوج کے ساتھ تعاون کا عزم رکھتے ہیں تاکہ افغانستان میں صورتحال کو مستحکم کیا جا سکے-حکومت پاکستان سیاسی مصالحت‘اقتصادی تعمیر نو اور ترقی کے ذریعے عوام اور قبائل کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے تاکہ اعتدال پسندوں کو انتہا پسندوں سے الگ کیا جا سکے-عوام کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے مختلف علاقوں میں مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں قبائلی عمائدین سے بات چیت ہو رہی ہے لیکن دہشت گردوں سے کوئی بات نہیں کریں گے اور نہ ہی ان لوگوں سے کوئی مذاکرات ہونگے جو تشدد کے ذمہ دار ہوں-انہوں نے کہا کہ تشدد اور عدم استحکام کے خاتمے کیلئے تعمیر نو پر توجہ دینا ضروری ہے جس کیلئے بڑی سرمایہ کاری ضروری ہے اس ضمن میں ہم امریکہ کی طرف سے ان علاقوں میں تعمیر نو زون قائم کرنے کا خیر مقدم کرتے ہیں اس مقصد کیلئے تین سال میں 75کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے-ہم امن اور مذاکرات کے ساتھ ساتھ حکومت کی عملداری قائم کرنے پر بھی بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور کسی قسم کی دہشت گردی اور افغانستان کے اندر سرحد پار حملے کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا-جہاں اس قسم کی خلاف ورزی ہو گی حکومت بھرپور طاقت استعمال کرے گی-اسی ضمن میں خیبر ایجنسی میں کاروائی جاری ہے اور آرمی چیف کو کسی بھی کاروائی کا مکمل اختیار دیا گیا ہے پاکستان کسی کو اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا تاہم غیر ملکی فوجیوں کو پاکستان کے اندر کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی-دو طرفہ تعاون اور رابطوں کے ذریعے دہشت گردی اور مداخلت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے پاکستان سہ فریقی کمیشن میں اپنا بھرپور تعاون جاری رکھے گا اور ہم اس تعاون کو مزید موثر بنانے کیلئے ہر قسم کی تجاویز کا خیر مقدم کریں گے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارے ساتھی بھی اپنا کردار ادا کریں اور ان اقدامات پر توجہ دیں وزیر خارجہ نے ان اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ افغان سائیڈ پر فوج کی تعیناتی اور چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے‘کیونکہ پاکستان نے بھی یہاں ایک لاکھ فوج لگا رکھی ہے اور 1200چیک پوسٹیں قائم کر رکھی ہیں-دوسرا قدم انٹیلی جنس کا بروقت تبادلہ ہے سرحد پار حادثات اور سرحدی خلاف ورزیوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ زمینی اور فضائی حملوں سے قبل آگاہ کیا جائے-پاکستان کو ضروری آلات فراہم کئے جائیں-چالیس ہزار کے قریب روزانہ قانونی طور پر آنے جانے والوں پر موثر چیک رکھا جائے اس کیلئے بائیومیٹرک آئی ڈی کارڈ استعمال کئے جا سکتے ہیں-افغان مہاجر کیمپوں کو سرحد کے قریب لایا جائے- وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان جس قسم کے تعلقات موجود ہیں ان کا تقاضا ہے کہ دونوں جمہوری حکومتیں سیاسی رد عمل کو اس سے بہتر بنائیں جو حالیہ مہینوں میں رہا ہے افغان وزیر خارجہ اور میں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران دوروں کے تبادلے کا آغاز کیا ہے ۔

(جاری ہے)

صدر حامد کرزئی جن سے مجھے ملنے کا اعزاز حاصل ہوا وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر افسوس کر نے والے آخری لوگوں میں سے تھے۔ہمیں شکوک و شبہات اور بد اعتمادی کے خاتمے کیلئے مزید بہت کچھ کر نا ہوگا حکومت پاکستان افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ ہے ہمیں جن اقدامات پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ان میں اعلان کابل کے مطابق ایک دوسرے کی سلامتی اور جغرافیائی سالمیت کا احترام شامل ہے جبکہ ہمیں سر زمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال کر نے کی اجازت نہیں دینی چاہیے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کر نا ہوگا ہر سطح پر تیزی سے دورے ہونے چاہئیں جرگہ کو مستحکم کیا جائے پاکستان جلد ایک چھوٹا جرگہ بلائے گا ہمیں انقرہ پراسیس کی بھی حمایت کر نی چاہیے اور افغانستان  ایران پاکستان سہہ فریقی تعاون کو فروغ دینا ہوگا ۔

دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون بہتر ہے ہماری تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جسے مزید بڑھاجاسکتا ہے ۔افغانستان کی اکثر تجارت پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے پاکستان نے تعمیر نو کیلئے 30کروڑ ڈالر کا وعدہ کیا جبکہ افغان مہاجرین کی بحالی کیلئے مزید دو کروڑ ڈالر کا وعدہ کیا ہے ۔خوراک کے بحرا ن پر پاکستان نے پچاس ہزار ٹن گندم افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جو رعایتی نرخوں پر بھیجی گئی پاکستان افغانستان کی قومی ترقیاتی حکمت عملی کی حمایت کرتا ہے ۔

28سے 30اگست تک پاکستان افغان رینجز اکنامک کو آپریشن فورم کی میزبانی کریگا ۔دونوں ملکوں کو اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے ملکر تعمیرنو زون بنانے چاہئیں جو سرحدی علاقوں میں قائم ہوں ۔پاکستان کے وسطی ایشیاء سے بھی بجلی کی در آمد کے منصوبوں میں افغانستان تعاون کرے اور ترکمانستان سے گیس پائپ منصوبے کو بھی آگے بڑھایا جائے۔پاکستان اورافغانستان مل کر ہی امن اور استحکام کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور یہ ممالک عالمی برادری کے غیر مشرو ط تعاون سے کامیاب ہوسکتے ہیں ۔وزیر خارجہ نے کہاکہ سلامتی کونسل کے اس اجلاس میں صورتحال پر بحث کے نتیجے میں چیلنجوں سے نمٹنے اور تعاو ن کے فروغ میں مدد ملے گی ۔