صدر مشرف کا استعفیٰ جمہوریت کی فتح ہے،ایٹمی سائنسدان قدیر خان کو کسی ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا، پاکستانی سفیرحسین حقانی

بدھ 20 اگست 2008 14:24

نیو یارک (اردوپوائنٹ اخبا ر تازہ ترین20اگست2008 ) امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ صدر مشرف کا استعفی پاکستان میں جمہوریت کی فتح ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کا بدستور اتحادی رہے گا تاہم پاکستان کے ساتھ ساتھ امریکہ اور افغانستان کو بھی برابرکے اقدامات کرنے ہونگے۔ ایٹمی سائنسدان عبدالقدیر خان کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا،پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

صدر مشرف کے استعفی کے دوسرے روز واشنگٹن میں امریکی تھنک ٹینک نیو امریکہ فاونڈیشن کے سیمینار میں مشرف کے بعد کے پاکستان کے استحکام کے حوالے سے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ صدر مشرف کا استعفی پاکستان میں جمہوری نظام کے لئے ایک نیا موقعہ ہے۔

(جاری ہے)

پہلی بار پاکستان کی فوجی قیادت خود کو سیاست سے الگ تھلگ رکھنے پرآمادہ دکھائی دیتی ہے مگرپاکستان کی مینجمنٹ کو اب عوامی حکومتوں کے ساتھ مل کر چلنا سیکھنا ہوگا۔

حسین حقانی نے کہاکہ یہ پاکستان کے لئے ایک موقعہ ہے کہ ملٹری اور سویلین حکومتوں کے درمیان آنکھ مچولی کاسلسلہ توڑا جائے۔ یہ تبدیلی اس لئے بھی اہم ہے کہ فوج کے ذریعے اقتدار میں آنے والا بغیر کسی فوجی مداخلت کے اقتدارچھوڑنے پر تیار ہو گیا۔ اس بار پاکستان نے تبدیلی کا عمل ایک بالکل آئینی اور قانونی طریقے سے مکمل کیا ہے ۔ اور تمام تر مسائل کے باوجود پاکستانیوں میں ایک امید جاگی ہے کہ شائد آگے بڑھنے کا کوئی راستہ اب بھی موجود ہے۔

انھوں نے کہاکہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ فوج نے اپنے آپ کو ملکی سیاست سے الگ رکھا ہے جو ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ وہمانتے ہیں کہ فوج کو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے تشویش ہے مگر یہ پہلا موقعہ ہے کہ فوج سویلین قیادت کے ساتھ اس طرح مل کر کام کرنے پر تیار ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ صدر مشرف کا مستقبل اب کیا ہوگا اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی لیکن عمومی طور پر پاکستان میں اس وقت افہام و تفہیم کی فضا ہے۔

حقانی کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صدر مشرف نے اپنے کردار کوبڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ امریکہ اور مغربی ملک ان کی غیر آئینی حکومت کی حمایت کرتے رہیں مگر پاکستان کی سویلین حکومت کو اپنی اہلیت ثابت کرنے کا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ پاک افغان تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے حسین حقانی نے کہا کہ جب تک پاکستان ،افغانستان ،نیٹو اور امریکہ ایک دوسرے کے تعاون سے حکمت عملی ترتیب نہیں دیتے۔

اس وقت تک پاک افغان سرحد پرنہ تو مکمل کنٹرول قائم کیا جا سکتا ہے اورنہ ہی سرحد کے دونوں اطراف میں القاعدہ کی تلاش کا کام ممکن ہے۔ واشنگٹن میں بار بار پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف اور کام کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے تمام فریقوں امریکہ ،نیٹو،افغانستان اور پاکستان سب کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناپاکستان اس میں اپنا کردار ادا کرنے کا مکمل ارادہ رکھتا ہے۔

پاکستانی سفیر نے امید ظاہر کی کہ پاکستان میں حکمراں اتحاد چند مشکلات کے باوجود قائم رہے گا۔ کیونکہ پاکستانی سیاستدانوں نے سمجھ لیا ہے کہ پاکستان میں مستحکم سیاسی نظام قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ فوج کو دوبارہ سیاست میں مداخلت کا موقعہ نہ ملے۔انھوں نے کہاکہ پاکستان کے دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین اپنی عمر کے ابتدائی پچاس سالوں میں ہیں اور دونوں کو کوئی جلدی نہیں ہے۔

آصف زرداری اپنی اہلیہ کی موت کے بعد ایک معاملہ فہم سیاستدان بن کر ابھرے ہیں اور نواز شریف نے بھی حکومت سازی اورصدر کے مواخذہ اور دیگر اختلافی معاملات پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنے کی زبردست صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ لوگ پاکستانی قیادت کے بارے میں ضرورت سے زیادہ بد گمانی کا شکار ہیں مگر پاکستانی قیادت نے تاریخ سے کئی سبق سیکھے ہیں۔

حسین حقانی نے کہا کہ ڈاکٹر عبد القدیر خان کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جائے گا کیونکہ دنیا کا کوئی ملک اپنے سائنسدان کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرتا لیکن پاکستان کے ایٹمی ہتھیار وں کی حفاطت نیوکلئیر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ماتحت ہے جو انتہائی پروفیشنل افراد کے ہاتھ میں ہے اور ملک کا آئندہ صدر اس کا سربراہ ہوگا۔