(ن) لیگ نے لندن اے پی سی کے معاہدے جبکہ پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کیساتھ ہونے والے معاہدے کو نظر اندازکیا ،مولانا فضل الرحمن

اتوار 29 مارچ 2009 18:24

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔29مارچ۔2009ء) جمعیت علماء اسلام کے امیر اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن نے لندن اے پی سی کے معاہدے جبکہ پیپلز پارٹی نے جے یو آئی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ امریکی امداد ذلت آمیز شرائط پر دی گئی ہیں۔ پنجاب میں حکومت ساز ی کی دعوت مسلم لیگ ن کودے کر امتحان میں ڈال دیا گیا ہے۔

حالیہ بحران کے حوالے سے بدنامی کے داغ اگر اسی طرح دھونے تھے پھر میری اسفندیار ولی خان کی تجاویز پر عمل کرنے میں کیا مشکل تھی جو جامع مفاہمت پر مبنی تھی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو سندھ کے 4روزہ دورہ کے موقع پر ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کے ہمراہ جے یو آئی کے مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری اور سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومروبھی تھی۔

(جاری ہے)

جبکہ جے یو آئی کے رہنماء مولانا عبدالکریم عابد، قاری محمد عثمان، اسلم غوری، حماد اللہ شاہ، معروف تاجر رہنماء حاجی مسعود پاریکھ اور دیگر نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب ہم 17ویں ترمیم کے خاتمے کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آئین کو 12اکتوبر 1999ء کی پوزیشن میں بحال کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی سمیت دیگر چیزیں اسی میں شامل ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان آئینی ایشوز کا معاملہ اب تک حل ہونا چاہیئے تھا اس میں تاخیر نہیں ہونا چاہیے تھی۔ میثاق جمہوریت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم اس معاہدے کے نہیں بلکہ لند ن میں ہونے والی نوازشریف کی آل پارٹیز کانفرنس کے معاہدے کے پابند ہیں۔ جو میثاق جمہوریت کے بعد ہواہے۔ اور زیادہ بااثر یہی معاہدہ ہے۔ مگر افسوس کہ نواز شریف نے اس معاہدث کو پس منظر میں ڈال دیا اور کہیں بھی اس کا ذکر نہیں کرتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ملک کی دو بڑی جماعتیں میثاق جمہوریت پر عمل کرتی ہیں تو ہمیں کوئی شکوہ نہیں۔ اب معاہدات اور مختلف آئینی دستاویزات پر عمل کرنا چاہیے پاور پالیٹکس نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آصف علی زرداری نے این جی اوز کی تجاویز کو اہمیت دے کر اپنی تقریر میں ان کا ذکر کیا جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا حالانکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔

ہم اس عمل کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کئی امور پر اپنی سفارشات مکمل کیں ہیں اور اس حوالے سے جے یو آئی کا پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک معاہدہ بھی ہواہے۔ اب تک ہم مصلحتاً اس پر خاموش تھے مگر پیپلز پارٹی نے اس معاہدے کو کلی طور پر نظر انداز کرتے ہوئے مکمل خاموشی اختیار کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکی امداد ذلت آمیز شرائط پر دی گئی ہیں۔

صدر آصف علی زرداری کو پارلیمنٹ میں بحث سے پہلے امریکی صدر کے اعلان پر اپنے خطاب میں ذکر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہ عمل پارلیمنٹ کے روایات کے برعکس ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں پرپورے ملک میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اس پر حکمرانوں کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر، وزیراعظم اور دیگر پاکستانی حکام کی امریکی صدر سے ہونے والی ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

امریکی صدر اوباما یقین دہانیوں کے باوجود بش کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا نے پاکستان کو جنگ کی آماجگا ہ بنایا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں ہم اس پر کھل کر بحث کرینگے اور اپنے نقطہء نظر سے ارکان کو آگاہ کرینگے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نے ایک سوال پر کہا کہ دہشت گردی کا لفظ امریکیوں کو استعمال کرنے دیا جائے ہمیں اس کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

کیونکہ ہم خود مختار ملک ہیں اور ہمیں اپنی خودمختاری کا سودہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ایک سوال پر کہا کہ سوا ت امن معاہدہ پر عمل ہونا چاہیے اور جو شکایات ہیں ان کا ازالہ کیاجائے۔ یہ معاہدے ایک ایسی تنظیم سے کیا گیا ہے جسے کالعدم کہا جاتا ہے جب اس سے معاہدہ کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کالعدم نہیں ہے۔ ایک اور سوال پر کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ امریکی امداد ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک رسائی سے مشروط ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیگر پاکستانیوں کی طرح ایک آزاد شہری ہیں وہ پوری قوم کے لیے محترم ہیں۔ اگر کوئی ایسی شرط ہے تو ہم اسے نہیں مانتے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر کے انتخاب کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ یہ جماعت اسلامی کا داخلی معاملہ ہے ہم نئے امیر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔ جبکہ قاضی حسین احمد کے ساتھ ہم نے ایک طویل عرصہ کام کیا آج بھی ہم ان کا احترام کرتے ہیں۔