بھٹو شہید کی سیاست اصولوں اور سچائی پر مبنی تھی جبکہ آج کی سیاست جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے، نواب ممتاز علی بھٹو

ہفتہ 4 اپریل 2009 18:46

گڑھی خدا بخش (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4اپریل ۔2009ء) سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نواب ممتاز علی خان بھٹو نے کہا کہ بھٹو شہید کی سیاست اصولوں اور سچائی پر مبنی تھی لیکن آج کی سیاست صرف جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے۔ بھٹو کے مزار پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے ان کے دشمن اور مخالف تھے جنہوں نے پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں اور ضیاء الحق کو اجرک  سندھی ٹوپیاں بھی پہنائیں۔

پیپلز پارٹی زرداری کی پارٹی ہے جس کو بھٹو کے نام پر استعمال کرنے کا حق نہیں  زرداری کی پارٹی میر مرتضی اور بے نظیر کے قتل کی ذمہ دار ہے حکمران ناکامی تسلیم کرتے ہوئے ایسی جگہ چھپ جائیں جہاں کوئی ڈھونڈ نہ سکے ورنہ عوام لٹکا دینگے ۔ ہفتے کو سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نواب ممتاز علی خان بھٹو ہزاروں کارکنوں کے بڑے جلوس کی صورت میں لاڑکانہ سے گڑھی خدا بخش بھٹو پہنچ کر بھٹو خاندان کے شہداء  ذوالفقار علی بھٹو  شاہنواز بھٹو  میر مرتضی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مزاروں پر حاضری دی  فاتحہ خوانی کی اور پھولوں کی چادریں چڑھائیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نواب ممتاز علی بھٹو نے کہا کہ30سال گزرنے کے بعد بھی ہر برسی پر ملک بھر سے عوام کا شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مزار پر حاضری دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ شہید کی سیاست  نظریے  اصولوں اور سچائی پر مبنی تھی جس کو عوام آج تک یاد کررہے ہیں اس کے ساتھ عوام نے یہ بات بھی نہیں بھلائی ہے کہ شہید بھٹو نے اپنی جان کی بازی عوام کیلئے لگائی ورنہ ضیاء نے تو اس کو ملک سے باہر جانے کا بھی کہا جو اس نے ٹھکرا دیا۔

اس کے مقابلے میں آج کل کی سیاست میں نظریہ اور اصول تو نہیں ہے صرف جھوٹ اور دھوکے پر مبنی ہے جو سیاسی رہ نما کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی قرآن شریف کی نہ تو آیت ہے اور نہ ہی کوئی حدیث شریف ان کو کیا پتہ کہ سیاست عوام سے رابطے کی مہم ہوتی ہے جو پاک شفاف اور پتھر پر لکیر ہے۔ ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ جو آج شہید بھٹو کی مزار پر مگر مچھ کے آنسو بہارہے ہیں وہ اس کے دشمن اور مخالف تھے اور اس کی پھانسی پر نہ صرف مٹھائیاں تقسیم کی تھیں بلکہ ضیاء الحق کو اجرک اور سندھی ٹوپیاں بھی پہنائی تھیں۔

ممتاز علی بھٹو نے مزید کہا کہ بھٹو شہید اور مجھے ستمبر1977ء میں لاڑکانہ سے گرفتار کیا گیا اور مجھے کراچی سینٹرل جیل تو بھٹو شہید کو لاہور کوٹ لکھ پت جیل میں رکھا گیا۔ ڈیڑھ سال مقدمہ چلنے کے دوران کسی بھی پیپلز پارٹی کے اہم رہنما نے اس سے ملاقات تک نہیں کی لیکن جن ایک دو کو انہوں نے ملاقات کرنے کیلئے پیغام بھیجے انہوں نے بھی ملاقات کرنے سے انکار کیا  دوسری طرف کراچی سینٹرل جیل سے رہ نماؤں کو میں نے پیغام بھیجے کہ شہید بھٹو کی جان بچانے کیلئے میدان میں نکلو لیکن کوئی بھی باہر آنے کیلئے تیار نہیں تھا جبکہ کئی رہ نماؤں نے تو پیسے بھی مانگے جو ان تک پہنچائے گئے اس کے برعکس بھی کچھ نہ کیا۔

بھٹو شہید کی پھانسی سے ڈیڑہ ماہ قبل جب سندھ ہائی کورٹ نے مجھے ضمانت پر رہا کیا تو گھر بیٹھنے کے بجائے سیدھا راولپنڈی گیا جہاں وکلاء کے سوا پیپلز پارٹی والوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا  ڈیڑہ ماہ کے عرصے کے دوران میں شہید بھٹو  سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو سے مسلسل رابطے میں رہنے کے بعد واپس آکر سندھ کا دورہ کیا اس دوران اہم رہ نماؤں کو باہر میدان میں آنے کیلئے دوراوازے کھٹکھٹائے لیکن ایک بھی باہر نہیں نکلا۔

ممتاز علی بھٹو نے کہا کہ آج کی پیپلز پارٹی زرداری کی پارٹی ہے جس کو بھٹوؤں کا نام استعمال کرنے کا تو کوئی حق نہیں ہے بلکہ بار بار مزار پر آکر تصویریں بنا کرعوام کو مزید بے وقوف کرنے کی کوششیں بھی بند کرنی چاہئیں اور مگرمچھ کے آنسو بہانے والے زرداری کی پیپلز پارٹی ہی شہید مرتضی بھٹو اور شہید بے نظیر کے قتل کی ذمہ دار ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اوربدکرداری نے ملک کوبڑے خطرے میں ڈال دیا ہے عوام کو بد امنی اور ماؤں کو بچے فروخت کرکے آٹا لینے کے ساتھ دیگر بڑی مصیبتوں میں غرق کردیا ہے جس وجہ سے ان کے کارکن بھی ان سے بیزار ہو گئے ہیں۔

اس لئے ہی یہ عوامی میدان سے بھاگ کر محلوں میں اجلاس کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جہاں پولیس  رینجرز  اور فوجی جہازوں سمیت پہرے ہیں ۔ جو عوام سے اتنا خوفزدہ ہیں تو وہ عوام کی قیادت کیسے کریں گے؟ غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ اب یہ اپنی ناکامی کو قبول کرتے ہوئے عوام کے کندھے سے بوجھ اتار کر کہیں ایسی جگہ پر چھپ جائیں جہاں کوئی بھی ان کو ڈھونڈ نہ سکے ورنہ یہی عوام ان کولٹکا دیں گے۔ اس موقع پر امیر بخش خان بھٹو  ایوب  سید حسین محمود شاہ  انور گجر  ڈاکٹر روشنی  غلام رسول چانڈیو  خادم  شیر کھوسہ  ارشاد جونیجو  محمد صالح و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔

متعلقہ عنوان :