القاعدہ اور طالبان سے خطے کو نہیں پوری دنیا کو خطرہ ہے پاکستان میں موجود ہشت گرد امریکہ اور دیگر ممالک میں حملے کی منصوبہ بندی کررہے  امریکہ ،ایران کے ساتھ کاروباری مراسم نہیں رکھے جاسکتے  ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ہمارا موقف امریکی قوانین کے مطابق ہے  کوئی تبدیلی زیر غور نہیں رچرڈ باؤچر ، پاکستان میں موجود توانائی کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنے میں مدد کرسکتے ہیں ،بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں  کشمیر سمیت دیگر معاملات پر ایسے اقدامات چاہتے ہیں جس دونوں ممالک کو قریب آنے کی حوصلہ افزائی ہو  انٹرویو

منگل 5 مئی 2009 18:50

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5مئی۔2009ء) امریکہ نے کہا ہے کہ القاعدہ اور طالبان سے خطے کو نہیں پوری دنیا کو خطرہ ہے امریکی قوانین کے تحت ایران کے ساتھ کاروباری مراسم نہیں رکھے جاسکتے  ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ہمارا موقف امریکی قوانین کے مطابق ہے  کوئی تبدیلی زیر غور نہیں  پاکستان میں موجود توانائی کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنے میں مدد کرسکتے ہیں جدید آلات پاکستان کو مل رہے ہیں  تعداد ناکافی ہے  پاکستان میں موجود ہشت گرد امریکہ اور دیگر ممالک میں حملے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں  خواہش ہے پاکستانی حکومت اور پاک فوج گڑبڑ پھیلانے والوں کو ملک سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی چاہتے ہیں  کشمیر سمیت دیگر معاملات پر ایسے اقدامات چاہتے ہیں جس دونوں ممالک کو قریب آنے کیک حوصلہ افزائی ہو۔

(جاری ہے)

امریکی ریڈیو کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں وزیر خارجہ رچرڈ باوٴچر نے اس سوال کے جواب میں کہ بہت سے مبصرین کے مطابق ایران کے لیے امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے۔ تو کیا ماضی کے برعکس اب امریکہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبے کے پاکستان کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا ان کا کہنا تھا۔ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر ہمارا موقف امریکی قوانین کو سامنے رکھ کر اپنا یاگیاتھا ۔

ان قوانین کے تحت ایران کے ساتھ کاروباری مراسم نہیں رکھے جاسکتے۔ ان قوانین میں نہ تو کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی کوئی تبدیلی زیرِ غور ہے۔ لیکن ہم اس معاملے کو پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور انھیں پورا کرنے کے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ پاکستان اپنے ہاں موجود توانائی کے ذرائع پر انحصار کرے۔ جیسے کہ کوئلہ، ہائیڈروپاور اور توانائی کے متبادل ذرائع ۔

ہم بھی پاکستان میں موجود توانائی کے ذرائع کو بہتر طور پر استعمال کرنے میں پاکستان کی مدد کرسکتے ہیں اور ہم کربھی رہے ہیں جیسے کہ وسطی ایشیا سے بجلی پاکستان تک پہنچانے کا منصوبہ جو کہ پاکستان کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتاہے۔باوٴچر سے ایک اور سوال یہ تھا کہ گذشتہ ہفتے پاکستان کے دفترِِ خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پاکستان کو مناسب آلات فراہم کیے جائیں۔

تو کیا پاکستان کو ضروری آلات مناسب طریقے سے نہیں مل ر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سامان پاکستان کو مل رہا ہے اور اس وقت بھی وہاں موجود ہے۔ لیکن اس کی تعداد ناکافی ہے ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ آرمی یا فرنٹیئر کور ناکافی اسلحے یا ضروری آلات کے اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتی اسی لیے ہم نے کانگریس سے پاکستان کے لیے مزید رقم کی درخواست کی ہے تاکہ پاکستان کی آرمی اور فرنٹیئر کور کو ان تمام چیزوں سے لیس کیا جاسکے جن کی مدد سے وہ شورش پر قابو پانے والی موثر فورس کے طور پر کام کرسکیں۔

امریکی معاون وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے ڈرون حملوں کے معاملے پر امریکہ سے اختلاف ہے اور صدر زرداری امریکی صدر سے ملاقات میں یہ معاملہ اٹھائیں گے۔ امریکا کا اس حوالے سے کیا موقف ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ملاقات سے قبل تو میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کون سے معاملات زیرِ غور آئیں گے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے دوررس پالیسی کے طور پر یہ بہت اہم ہے کہ پاکستانی حکومت کا اپنے ملک کے تمام علاقوں پر مکمل کنٹرول ہو۔

ہماری خواہش ہے کہ پاکستان آرمی اپنے علاقوں میں گڑبڑ پھیلانے والوں کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب رہے، پولیس وہاں امن کا قیام یقینی بنائے اور حکومت ایسے پروگرامز پر عملدرآمد کروائے جن سے عوام کی فلاح ہو۔ ہمارے خیال میں دہشت گردی سے نمٹنے لیے لیے یہ سب سے موثر حکمتِ عملی ہوسکتی۔ دیگر معاملات بھی زیرِ غور آسکتے ہیں لیکن بنیادی نکتہ دونوں جانب یہی ہوگا کہ دہشت گردی پر قابو پانے لیے کون سے اقدامات ضروری ہیں۔

رچرڈ باوٴچر سے ایک اور سوال یہ تھا کہ کیا دونوں صدور کے درمیان ملاقات میں سب سے اہم نکتہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی کو ہی سمجھاجائے ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات کے حوالے سے سب سے اہم بات جو ہمارے سامنے ہے وہ یہ کہ دونوں ممالک کے سامنے ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو امریکہ پاکستان اور دنیا کے دیگر ممالک کے خلاف کارروائیوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت اس قابل ہو کہ ان علاقوں میں اسکاموثر کنٹرول ہو اور وہ وہاں رہنے والوں کا خیال رکھ سکے۔ تو میرے خیال میں یہ وہ معاملہ جس پر دونوں صدور بات کرنا چاہیں گے۔ امریکی حکومت کی جانب سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو اپنی توجہ بھارت کے بجائے اندرونی خطرے پر مرکوز رکھنی چاہیے تو اس بات کو پاکستان میں پزیرائی نہیں ملتی۔

پاکستان میں تاثر یہ ہے اگر امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنی تمام توجہ دہشت گردی پر مرکوز رکھے تو اسے کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دباو ڈالنا ہوگا۔ کشمیر کے معاملے پر امریکی کردار سے متعلق سوال کے جواب میں رچرڈ باوٴچر نے کہا کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت ایسے اقدامات کریں جن کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو۔

چاہے وہ سرحدی تنازعات ہو، کشمیر ہو، تجارت یا کوئی اورمعاملہ، ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ دونوں ممالک کو قریب آنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ لیکن ہم ان تمام معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ پاکستان اور بھارت کے اپنے معاملات ہیں اور دونوں ممالک یہ نہیں چاہتے کہ ہم ان میں کوئی مداخلت کریں۔ جہاں تک آپ کا پہلا سوال ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پاکستان کس قسم کی ریاست کے طور پر آگے بڑھنا چاہتا ہے بیرونی خطرے سے خود کو بچانے کے لیے اقدامات کرنا اہم ہے لیکن اگر آپ اپنے ملک کے اندر ہی کنٹرول کھو رہے ہوں تو آپ کو پہلے اس سے نمٹنا ہوگا۔

اس وقت پاکستان میں تمام منصوبہ سازوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ انھیں فوری طور پر اندرونی خطرے سے نمٹنا ہوگا اور ہم نے حالیہ ہفتوں میں دیکھا کہ سب سے بڑااندرونی خطرہ کون سا ہے۔