بینظیر بھٹو شہید کی موت نے سیاسی اختلافات ختم کر دیئے، قمر زمان کائرہ

ہفتہ 20 جون 2009 18:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20جون ۔2009ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ محترمہ شہید کی موت نے سیاسی اختلافات ختم کر دیئے۔ پوری قوم آج بھی اپنی عظیم بیٹی کیلئے گریہ و ملال میں ڈوبی ہوئی ہے۔ محترمہ نے حق گوئی اور عوامی حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے مشن کا پرچم بلند کئے رکھا محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی 56ویں سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے کہاکہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کی موت نے سیاسی اختلافات کو ختم کر دئیے اور پوری قوم اپنی عظیم بیٹی کے لئے گریہ و ملال میں ڈوب گئی۔

بی بی شہید نے 27دسمبر 2007ء کو جام شہادت نوش کیا۔ اس روز سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو گا جب قومی اور عالمی امور کے حوالے سے ان کا تذکرہ سننے میں نہ آیا ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے اپنی 30سالہ سیاسی جدوجہد میں ایثار، قربانی، حب الوطنی، غریب پروری، عوام دوستی اور مثبت انداز سیاست کی ایسی مثالیں قائم کیں جن کا اعتراف کئے بغیر ہماری سیاسی تاریخ مکمل اور معتبر نہیں ہو سکتی۔

وہ ایوانِ اقتدار میں موجود رہیں یا اپوزیشن کی صفوں میں شامل رہیں، انہوں نے حق گوئی اور عوامی حقوق کی بازیابی کے لئے اپنے مشن کا پرچم بلند کئے رکھا۔ یہ ان کی دور اندیشی اور مثبت انداز فکر کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے مفاہمت کا جو فلسفہ پیش کیا وہ اب قومی امور کے حوالے سے سب سے زیادہ قابل عمل اور ثمر بار طر ز احساس تصور کیا جاتا ہے۔ بی بی شہید نے اپنے پاپا (ذوالفقار علی بھٹو) سے راولپنڈی جیل میں آخری ملاقات کے سوگوار اور اداس لمحات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ غریب عوام کا ساتھ دینے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں عوام کا پاکستان بنانے کے لئے ان کے مشن کو پورا کریں گی اور بی بی شہید نے اپنا یہ وعدہ اس وقار اور آن بان سے پورا کیا کہ اب قیامت تک اہل وطن اور اہل فکر و نظر ان کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے گواہی دیں گے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے اس وعدہ کو اپنی آخری سانس تک نبھایا۔

محترمہ کی شہادت کے بعد جو حقائق اور واقعات منظر عام پر آئے ان سے با آسانی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے بخوبی آگاہ تھیں۔انہوں نے اپنی وصیت خود رقم کر رکھی تھی، انہوں نے اپنے ذاتی استعمال کی اشیاء اپنے قریبی ساتھیوں اور خدمت گذاروں میں تقسیم کرنے بارے واضح ہدایات تحریر کر دی تھیں اور انہوں نے پارٹی قیادت کے حوالے سے واضح احکامات قلمبند کر دئیے تھے۔

گویا محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً جب وہ 18اکتوبر 2007ء کو دوبئی سے وطن واپسی کے لئے روانہ ہوئی تھیں تو وہ اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھ کر چلی تھیں۔ اگرچہ آج بی بی شہید ہم میں موجود نہیں مگر بقول آصف زرداری ”محترمہ اپنے قاتل کی زندگی سے زیادہ طویل عمر پائیں گی“ اور واقعی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں اور سچ دکھائی دیتی ہے:زندہ ہے بی بی ،زندہ ہے۔