پشاور پیپل منڈی دھماکہ ، ایک ہی خاندان کے 9افراد شہید ہوئے ، کنبے میں صرف ایک لڑکا عدنان حسین رہ گیا ، بہن ، بھائی اور والد کی لاشیں تک نہیں ملیں ، ہسپتال میں پڑے اعضا ء بھی نہیں پہنچانے جاتے ہیں ، عدنان کی گفتگو

بدھ 4 نومبر 2009 18:12

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 نومبر ۔2009ء) صوبہ سرحد کے دارالحکومت پشاور کے پیپل منڈی بازار میں ہونے والے ہولناک بم دھماکے میں ایک ہی خاندان کے نو افراد کی شہادت کے بعد اب اس کنبے میں صرف ایک لڑکا عدنان حسین رہ گئے ہیں۔پشاور میں دھماکے کے نتیجے میں عدنان کے والدین، چار بہنیں، ایک بھائی اور دو خالہ شہید ہوئے ہیں۔عدنان روزانہ اس امید سے ہسپتال جاتے ہیں کہ شاید ان کے لاپتہ تین بہنیں، ایک بھائی اور والد میں سے کسی کی لاش ملے تاکہ انھیں کچھ ذہنی سکون مل سکے لیکن ابھی تک ان میں سے کسی کی میت نہیں مل سکی ہے۔

چودہ سالہ عدنان حسین اس حادثے کے بعد اکیلے رہ گئے ہیں۔ وہ آج کل اندرون شہر کے علاقے چڑیگان میں اپنے چچا کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔

(جاری ہے)

عدنان اور ان کے خاندان کا تعلق بنیادی طور پر پشاور سے ہے تاہم وہ گزشتہ کچھ عرصے سے راولپنڈی میں مقیم تھے۔ عدنان کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ ان کے والد راولپنڈی میں فروٹ چاٹ فروخت کرتے تھے۔

عدنان نے برطانوی ریڈیو کو بتایا کہ ان کے کزن کی شادی تھی جس کیلئے ان کا سارا خاندان خصوصی طور پر راولپنڈی سے پشاور آیا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے امی، ابو اور بہنیں بازار میں شادی کے لیے خریداری کر رہے تھے کہ اس دوران وہاں تباہ کن دھماکہ ہوا جس میں خاندان کے نو افراد شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں ان کی والدہ، والد، چار بہنیں، ایک چھوٹا بھائی اور دو خالہ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کا بھی امی ابو کے ساتھ بازار جانے کا پروگرام تھا لیکن ابو نے انھیں منع کیا کہ وہ گھر میں رہیں۔ ’جب دھماکہ ہوا تو اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ میری تمام بہنیں بھی بازار گئی ہوئی ہیں بلکہ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ صرف ابو، امی اور خالہ بازار میں ہیں باقی سب لوگ گھر پر موجود ہیں لیکن یہ تو بعد میں چچا نے بتایا کہ بہنیں بھی بازار میں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک صرف چار لاشیں مل سکی ہیں جنھیں دفن کردیا گیا ہے لیکن میرے ابو اور بہنیں جن میں ارم، سحرش، فری اور تین سالہ بھائی سلمان حسین شامل ہیں وہ بدستور لاپتہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ روزانہ اس امید سے ہسپتال جاتے ہیں کہ کہی نہ کہی سے تو لاشوں کے بارے میں معلوم ہوسکے گا لیکن تاحال کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔عدنان کے بقول ’ہم نے جائے وقوعہ سے ملنے والی انسانی اعضاء بھی دیکھے ہیں جو ہسپتالوں میں تابوتوں میں رکھے گئے ہیں لیکن ان میں بھی میرے ابو اور بہنوں کے اعضاء کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو تین دن پہلے ایک لاوارث لاش ہسپتال لائی گئی تھی جو جسم سے بالکل میرے ابو جیسے لگ رہی تھی لیکن چچا نے لاش دیکھی تو کہنے لگے کہ یہ تمہارے ابو نہیں کیونکہ میں انھیں ہاتھ پاوٴں سے شناخت کر سکتا ہوں۔عدنان کہتا ہے کہ جب تک ان کے والد اور بہنوں کے حوالے سے کوئی حتمی بات سامنے نہیں آتی انھیں سکون نہیں ملے گا کیونکہ ایک امید بندھی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا جب سے یہ واقعہ پیش آیا ہے تو بہت اکیلے رہ گئے ہیں کیونکہ ان کا کوئی بہن بھائی زندہ نہیں رہے۔ تنہائی میں ماں اور چھوٹی بہن بہت یاد آتی ہیں۔عدنان بات کرتے وقت انتہائی افسردہ نظر آ رہے تھے۔ ان کے ساتھ وہاں ان کے دو چچا بھی موجود تھے جو انھیں مسلسل تسلی دے رہے تھے۔عدنان کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو ہوئے ایک ہفتہ پورا ہونے کو ہے لیکن ابھی تک ان کے پاس کوئی حکومتی نمائندہ نہیں آیا اور نہ ہی انہیں کسی نے معاوضہ دینے کا کہا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت ہلاک شدگان کے لواحقین کو رقم دے گی اور انہیں گھر تعمیر کر کے دے گی لیکن ابھی تک سرکاری طور پر کسی نے رابط نہیں کیا ہے

متعلقہ عنوان :