پاکستان اور بھارت خطے میں استحکام اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے خواہاں ہیں، شاہ محمود قریشی، دہشتگرد دونوں ممالک کے مذاکرات میں رخنے ڈالنا چاہتے ہیں، افغانستان کا مسئلہ عسکری قوت سے حل نہیں ہو گا، جامع حکمت عملی درکار ہے، امریکہ افغانستان میں فوجوں کی تعداد بڑھانے سے قبل پاکستان سے مشاورت کرے، وزیرستان آپریشن توقعات سے زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے، امریکی انتظامیہ کو ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کو فراہم کرنے پر قائل کر رہے ہیں، صحافیوں سے گفتگو ۔ اپ ڈیٹ

پیر 16 نومبر 2009 18:48

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16 نومبر ۔2009ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے پاکستان اور بھارت خطے میں استحکام اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے مذاکرات کے خواہاں ہیں ،ہم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہوسکتے جو دونوں ممالک کے مذاکرات میں رخنے ڈالنا چاہتے ہیں،افغانستان کا مسئلہ عسکری قوت سے حل نہیں ہو گا اس کیلئے جامع حکمت عملی درکار ہے ،امریکہ افغانستان میں فوجوں کی تعداد بڑھانے سے قبل پاکستان سے مشاورت کرے۔

وزیرستان آپریشن توقعات سے زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ،امریکی انتظامیہ کو قائل کر رہے ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کو دی جائے۔ پیر کو یہاں میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عالمی طاقتیں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی فوج اور عوام کی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہیں اور اس جنگ کے خلاف پوری قوم کی یکجہتی سراہتی ہیں،انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی جنگ پاکستان کی جنگ ہے اور کسی کے کہنے پراس کو کم یا زیادہ نہیں کرنا ہم نے پاکستان کی ضروریات اور ترجیحات کو دیکھنا ہے ۔

(جاری ہے)

جاسوس طیاروں کے حملوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ڈرون حملو ں پر حکومت کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے اوراس نقطہ نظرسے امریکی انتظامیہ کو بارہاآگاہ کیا گیا ہے اور ہم ان کو قائل کر رہے ہیں کہ ڈرون ٹیکنالوجی پاکستان کو دی جائے جب یہ ٹیکنالوجی پاکستان کو منتقل ہو جائیگی پھر پاکستان اسے خود استعمال کریگا جس سے پاکستان کی خود مختاری کا معاملہ نہیں اٹھے گا ۔

امریکہ کو پاکستان کی حساسیت کا خیال کرنا چاہیے ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل چاہتاہے اور بھارتی حکومت سمجھتی ہے کہ خطے میں کشیدگی کے خاتمے کے لئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،پاکستان بھی چاہتاہے کہ خطہ میں استحکام کیلئے آپس میں مل بیٹھ کرجامع مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے یہ صرف پاکستان کے مفاد میں نہیں بلکہ ہندوستان کے بھی مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہو سکتے ،ان کی اپنی ترجیحات ہیں ۔دہشتگردچاہتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات میں رخنے ڈالے جائیں۔ وزیر خارجہ نے کہا عالمی طاقتیں بھی کہہ رہی ہیں کہ ہندوستان مذاکرات کا راستہ نہ اپنا کر غفلت کر رہا ہے ،بھارت کو پاکستان کیساتھ بیٹھ کرتمام مسائل کا حل نکالنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ آج دنیا پاکستان اور بھارت کی نہیں بلکہ پورے خطے کی بات کر رہی ہے ،اس میں بہت سے عوامل ہیں جو پاکستان یا بھارت اکیلے حل نہیں کر سکتے، اس لئے علاقائی طرز فکر کی ضرورت ہو گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دولت مشترکہ پاکستان کی نمائندگی کرونگا اور وہاں پاکستان کا نقطہ نظر بیان کرونگا ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد بڑھانے کیلئے صدر باراک اوباما نومبر کے آخر میں اعلان کرینگے، وزیر خارجہ نے کہا کہ اس حوالے سے انہوں نے اپنے حلیفوں،دانشوروں،مختلف شراکت داروں سے مشاورت کی ہے جومکمل ہونے والی ہے ،انہوں نے کہا کہ19نومبر کو میں صدر زرداری کے ہمراہ افغانستان کے دورے پر جا رہاہوں ،وہاں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ سے اس حوالے سے بات چیت کی جائیگی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موقف ہے کہ افغانستان کا مسئلہ عسکری قوت سے حل نہیں ہو گا اس کیلئے جامع حکمت عملی درکار ہے ،اگر امریکہ افغانستان میں فورسز کی تعداد بڑھا بھی دیتا ہے تو پاکستان کیساتھ بہتر کوآرڈنیشن کی جائے اور ہم یہ نہیں چاہتے کہ اس کا پاکستان پر کوئی منفی اثر پڑے ۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو عالمی برادری کی توجہ کی ضرورت ہے اور دنیا اس بات پر قائل ہو چکی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیرافغانستان میں امن ممکن نہیں ۔انہوں نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن ہماری توقعات سے کہیں بہترانداز میں آگے بڑھ رہاہے ،ہماری عسکری قیادت نے جومنصوبہ بندی کی تھی وہ اس کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں جو قابل تحسین ہے ۔