پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ناکافی ہیں،شاہ محمودقریشی، بھارت سے بامقصد مذاکرات چاہتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان تمام حل طلب ایشوز پر بات ہونی چاہئے،پاکستان خود مختار اور آزاد ملک ہے ، ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، 14دسمبر کو امریکی سنٹرل کمانڈ اور لیڈر شپ پاکستان سے مذاکرات کرے گی،ملتان میں گفتگو

بدھ 9 دسمبر 2009 17:06

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 9 دسمبر۔ 2009ء) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت ناکافی ہیں  پاکستان بھارت سے بامقصد مذاکرات چاہتاہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان تمام حل طلب ایشوز پر بات ہونی چاہئے ،پاکستان خود مختار اور آزاد ملک ہے ، ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، 14دسمبر کو امریکی سنٹرل کمانڈ اور لیڈر شپ پاکستان سے مذاکرات کرے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز ملتان ائیرپورٹ پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وزارت خارجہ تحقیقاتی ایجنسی نہیں ہے ۔ تاہم وزرارت داخلہ کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد ناکافی ہیں ۔

(جاری ہے)

حکومت پاکستان شرم الشیخ میں دونوں وزراء اعظم کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بامقصد مذاکرات ہوں۔

کور ایشوز پربات ہو کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہی نہ صرف خطے میں امن قائم ہوگا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی روابط کو فروغ حاصل ہوگا انہوں نے کہاکہ امریکہ  برطانیہ  فرانس  جرمنی اور یورپی یونین بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے خواہش رکھتے ہیں اور پاکستان کے موقف کی تائید کررہے ہیں کیونکہ مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے انہوں نے اس موقع پر بھارتی قیادت کے اس تاثر کو بھی درست قرار دیا کہ بھارت پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ قرار دے رہا ہے ۔

امریکہ بھی ہماری ایٹمی تنصیبات کو محفوظ قرار دے چکاہے ۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ پاکستان خود مختار اور آزاد ملک ہے ۔ ہمیں کسی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہم اپنا دفاع اور ذمہ داریوں سے بخوبی آگاہ ہیں ۔امریکہ کی افغان پالیسی کے بارے میں پاکستان کو اعتماد میں لینے کے سوال کے پر انہوں نے کہاکہ یقینا اوبامہ انتظامیہ نے اپنی افغان پالیسی پر پاکستان کو اعتماد میں لیا ہے ۔

14 دسمبر کو امریکی سنٹرل کمانڈ اور لیڈر شپ پاکستان آرہی ہے جو پاکستان آرمی اور لیڈرشپ سے مذاکرات کرے گی ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان یہ نہیں چاہتاہے کہ امریکہ افغانستان میں مستقل رہے اور امریکی حکام نے ٹائم فریم کے حوالے سے اپنے لائحہ عمل وضع کیا ہے ۔ اوبامہ ایڈمنسٹریشن نے اس امرکااظہار کیاہے کہ امریکہ افغانستان میں مستقل قیام نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ وہاں اڈے بنانا چاہتا ہے ۔

دسمبر2010 ء اور جون 2011 میں افغان پالیسی پر زمینی حقائق کی روشنی میں دوبارہ جائزہ لیاجائے گا ۔ دیکھنا ہے کہ افغانستان کی حکومت ذمہ داریوں کو کب سنبھالنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ٹائم فریم کی بات نہیں کی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ جیسے افغان فورسز ذمہ داریوں کو سنھبالتی جائیں گی۔ بتدریج امریکی اور نیٹو فورسز واپس جائیں گی ۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کردیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ زیادہ دورانیے کیلئے افغانستان میں رہے تاہم اس موقع پر مخدوم شاہ محمود قریشی نے 1980 ء میں روسی جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ جب روس افغانستان سے چلاگیا تو اس وقت افراتفری اور انارکی پھیلی جس کا فائدہ طالبان نے اٹھایا لیکن اب حکمت عملی بنانا ہوگی کیونکہ مضبوط اور خوشحال افغانستان نہ صرف پاکستان کے بلکہ پورے خطے کے مفاد میں ہے ۔

پاکستان پر اس کے براہ راست پڑتے ہیں ۔ ملک میں جاری دہشت گردی پر شدید رنج وغم کااظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ راولپنڈی  لاہور  پشاور  کوئٹہ اور ملتان میں معصوم پاکستانیوں  بچوں  خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ سوات اور  مالا کنڈ آپریشن میں مسلح افواج کے جوان جس جوان مردی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں خراج تحسین کے لائق ہیں۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے بطور خاص راولپنڈی کی پریڈ مسجد مون مارکیٹ لاہور اور ملتان کے واقع پر شدید افسوس کااظہار کیا اور کہاکہ مساجد میں مارکیٹ میں معصوم لوگوں کا جان لینے والے اور ملک اور اسلام دشمن ہیں۔انہوں نے اس موقع پر علماء کے موقف کو خراج تحسین پیش کیا ۔ پاکستان کے عوام اور علماء کایہ تصور یقینی عین اسلام ہے کہ خود کش حملے حرام انہوں نے اس موقع پر پاکستان کے فوج کو خراج تحسین پیش کیا کہ فوج اور قوم کے حوصلے پست نہیں ہوں گے ۔

انہوں نے دہشت گرد قوتوں کو خبردار کیا کہ وہ ایسے حالات پیدا کرکے سیاسی ہم آہنگی اور ملکی اتحاد کو ثبوتاژ نہیں کرسکتے۔ ایک سوال پر وزیر خارجہ نے کہاکہ بحیثیت قوم ہمیں یقین ہوناچاہئے کہ پاکستان حالات جنگ میں ہے۔ دہشت گردی کی موجودہ لہر پاکستان کی معیشت کو کمزور اور لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنا لیکن پا کستان کے سترہ کروڑ عوام دہشت گردی کے ناسور کوجڑ سے اکھاڑنے کیلئے حکومت کے ساتھ ہم قدم ہیں ۔

ایک سوال پرانہوں نے کہاکہ طالبان کے اس عنصر سے جو افغانستان کے قانون کا احترام کرے ۔ ان کی حکومت کو تسلیم کرے اور غیر مسلح ہوجائیں  ہتھیار پھینک دیں تو مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں سرحد حکومت نے ایک عنصر سے بات کی لیکن یہ لوگ مذاکرات کو اہمیت نہیں دیتے اور وعدوں سے انحراف کرنا ان کا وطیرہ ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے اس مطالبے پر کہ امریکہ پاکستان سے نکل جائے کے جواب میں وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہاکہ امیر جماعت اسلامی منور حسن کا ہم احترام کرتے ہیں انہوں نے جوجرگہ سے خطاب کیا اور اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں ۔

ہم بھی امریکی عمل دخل کو ضروری نہیں سمجھتے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری قوم دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے سینہ سپر ہوجائے ۔