پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو وزیر خارجہ کی نئی امریکی افغان پالیسی پر بریفنگ ،افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے پر تحفظات ہیں ،ڈرون حملے ملکی خود مختاری کے منافی ہیں،شاہ محمود قریشی، امریکہ کے پاس اہم طالبان رہنماؤں کی پاکستان موجودگی بارے ثبوت ہیں توفراہم کرے ، خود کارروائی کرینگے،آئی ڈی پیز کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں،رضا ربانی

منگل 22 دسمبر 2009 21:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 22دسمبر۔ 2009ء) وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو امریکہ کی نئی افغان پالیسی بارے بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد بڑھانے پر تحفظات ہیں ،ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے منافی ہیں،جنہیں کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا،پاکستان کی افواج اپنی سرزمین پر کارروائی کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں ، غیر ملکی فوج کو اس کی اجازت نہیں دی جائیگی ،جبکہ کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس اہم طالبان رہنماؤں کی پاکستان موجودگی بارے ثبوت ہیں تو ان کا پاکستان سے تبادلہ کیاجائے، آئی ڈی پیز کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں ، حکومت بہتری کیلئے اقدامات کرے، ذرائع کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے منگل کو پارلیمنٹ کے قومی سلامتی کمیٹی کو امریکہ کی نئی افغان پالیسی کے بارے میں بریفنگ دی اور اس کے مختلف مثبت اور منفی پہلوؤں سے آگاہ کیا، انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کو افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں اضافے پرتحفظات ہیں ، کیونکہ اس کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑنے کا خدشہ ہے اور افغانستان میں تشدد بڑھنے کی وجہ سے نا صرف مہاجرین بلکہ القاعدہ اور طالبان کی بڑی تعداد بھی پاکستان آسکتی ہے،جو کسی بھی طرح ہمارے مفاد میں نہیں ہوگا،کمیٹی کے بعض ارکان نے مطالبہ کیا کہ افغانستان بارے نئی امریکی پالیسی میں پاکستان کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے ،وزیر خارجہ نے ارکان کو بتایا کہ حکومت امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور مختلف سطح پر بات چیت کا عمل جاری ہے، دونوں ممالک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہونے کے ناطے افغانستان کے بارے میں پالیسیوں میں ہم آہنگی کے خواہاں ہیں ،انہوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ امریکی ڈرون حملوں میں کسی طرح کی حکومتی رضا مندی شامل ہے، انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ متعدد مواقع پر یہ مسئلہ اٹھایا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ ڈرون حملے دہشتگردی کے خلاف پاکستان اورامریکہ کی کوششوں کو نقصان پہنچارہے ہیں اور قبائلی عوام اور دہشتگردوں کو یکجا کرنے کا باعث بن رہے ہیں،اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین رضا ربانی نے بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ کی نئی افغان پالیسی پر بریفنگ دی ، بریفنگ میں پالیسیوں کے تمام پہلوؤں بارے بتایا گیا ، انہوں نے کہا کہ کمیٹی کا آئندہ اجلاس محرم الحرام کے بعد بلایا جائیگا اور آئندہ اجلاس میں افغان پالیسی بارے ہم اپنی سفارشات تیار کر کے وزارت خارجہ کو بھجوائیں گے کمیٹی نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت اور وزیر خارجہ نے خطے میں امن کیلئے حقیقی طرز فکر اختیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے، انہوں نے کہا کہ خطے کے دیگر ممالک ایران ترکی ، ازبکستان اس میں شامل ہیں اور ان کے ساتھ حکومت پاکستان کی طرف سے باہمی دلچسپی کے امور اور دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیا جارہا ہے ، تاکہ اس خطے کے اندر مختلف سٹیک ہولڈرز کے ذریعے یہاں پرامن لایا جاسکے ۔

(جاری ہے)

موجودہ حکومت کے آنے کے بعد افغانستان سے تعلقات پہلے کی نسبت بہتر ہوئے ہیں اور حکومت اس بات کو محسوس کرتی ہے کہ تعلقات کو مزید بہتر اور مستحکم بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے آئی ڈی پیزکے معاملے کا سرسری جائزہ لیا اور اس پر فیصلہ کیا کہ محرم کے فورا بعد کمیٹی کا خصوصی اجلاس بلا کر آئی ڈی پیز کے حوالے سے صورتحال کا خصوصی جائزہ لیا جائیگا اور حکومت سے سفارش کی جائیگی کہ ان کی حالت کو بہتر بنایا جائے ، کمیٹی آئی ڈی پیز کی موجودہ صورتحال سے مطمئن نہیں کیونکہ آئی ڈی پیز کو بہت سی مشکلات درپیش ہیں ، رضا ربانی نے کہا کہ اگر امریکہ کے پاس طالبان رہنماؤں کی پاکستا ن میں موجودگی سے متعلق شواہد ہیں تو ان کا پاکستان سے تبادلہ کرے ، تاکہ پاکستان خود ان کے خلاف موثر کارروائی کرسکے ہم اس بات کے حامی نہیں کہ امریکہ ازخود پاکستان کے اندر کارروائیاں کرے، اسے پاکستان کی خود مختاری کیخلاف سمجھتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت نے ڈرون حملے رکوانے کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائی اور ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ملکی خود مختاری کے خلاف قرار دیا اور پارلیمنٹ میں اس بارے مشترکہ قرارداد بھی منظور کی گئی، رضا ربانی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں امریکی پالیسی برائے افغانستان کا جائزہ لینے کے بعد اس کے متعلق کچھ کہنے کے اہل ہونگے ، کیونکہ جب تک تمام پہلوؤں کا بغورجائزہ نہیں لے لیا جاتا تب تک کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔