برطانوی وزیراعظم نے یمن میں بڑھتی ہوئی اسلامی انتہاپسندی سے نمٹنے کیلئے عالمی اجلاس28جنوری کو طلب کیا ،بین الاقوامی برادری کو انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے یمن کی مدد کرنی چاہیے  گورڈن براؤن ، یمن میں القاعدہ سے نمٹنے کی صلاحیت اور عزم موجود ہے مغرب سے مزید حمایت درکار ہے  یمنی وزیر خارجہ ،اپنے جنگجووٴں کو یمن میں حکومت سے برسر پیکار باغیوں کی مدد کے لیے بھیجنے پر تیار ہے صومالیہ کے انتہا پسند گروپ کی دھمکی

ہفتہ 2 جنوری 2010 13:58

لندن+صنعاء (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔2جنوری۔ 2010ء) برطانوی وزیراعظم گورڈن براوٴن نے یمن میں بڑھتی ہوئی اسلامی انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے عالمی اجلاس طلب کیا ہے۔وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق 28 جنوری کو منعقد ہونے والے اس اجلاس کو امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہے اور گورڈن براوٴن اس سلسلے میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی توجہ چاہتے ہیں۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں بلایا گیا ہے جب کرسمس کے موقع پر امریکی طیارے کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے نائجیرین عمر فاروق عبدالمطلب کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کے روابط یمن میں موجود القاعدہ کے ارکان سے تھے۔گورڈن براوٴن کے مطابق اس اجلاس میں اہم عالمی طاقتیں شریک ہوں گی اور یہ اجلاس اسی دن افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس کے ساتھ منعقد ہوگا۔

(جاری ہے)

گورڈن براوٴن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے یمن کی مدد کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یمن میں دہشتگردی پنپ رہی ہے اور وہ مستقبل میں دہشتگروں کی محفوظ پناہ گاہ ثابت ہو سکتا ہے اور یہ کہ اس سے اس خطے اور دنیا کو خطرہ لاحق ہے۔یمن نے اس اجلاس کے انعقاد کا خیر مقدم کیا ہے۔ یمن کے وزیرِ خارجہ ابوبکر الکربی نے برطانوی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں القاعدہ سے نمٹنے کی صلاحیت اور عزم موجود ہے تاہم اسے مغرب سے مزید حمایت درکار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں مزید تربیت درکار ہے۔ ہمیں اپنے انسدادِ دہشتگردی یونٹوں کی استعداد بڑھانی ہے جس کے لیے انہیں ضروری تربیت، سامانِ حرب اور ذرائع آمدورفت درکار ہیں۔ ہمارے پاس ہیلی کاپٹروں کی کمی ہے۔ابوبکر الکربی کا کہنا تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین اس سلسلے میں بہت کچھ کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے برطانوی وزیراعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ اٹھائیس جنوری کو ہونے والے اجلاس کا ایک مقصد انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے یمن کی ضروریات کا جائزہ لینا اور امداد اور اصلاح کی مدد سے انتہاپسندی سے نمٹنے کے طریقوں پر بات کرنا بھی ہے۔

ادھر صومالیہ میں سرگرم اسلامی انتہاپسند گروپ الشباب نے کہا ہے کہ وہ اپنے جنگجووٴں کو یمن میں حکومت سے برسرِ پیکار باغیوں کی مدد کے لیے بھیجنے پر تیار ہے۔ الشباب کے رہنما شیخ مختار ابومنصور نے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ وہ یمن میں ایک ایسا اڈہ تیار کریں جہاں سے صومالی جنگجو کارروائیاں کر سکیں۔ خیال رہے کہ الشباب جو خود کو القاعدہ کی حمایت یافتہ تنظیم قرار دیتی ہے صومالیہ میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ کمزور حکومت گرانے کے لیے لڑ رہی ہے۔