موجودہ حکمرانوں نے ملک کو خانہ جنگی میں ڈال کر ہزاروں سولجر اور شہری مراودیئے ہیں ، ممتاز بھٹو

جمعرات 28 جنوری 2010 18:54

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔28جنوری۔ 2010ء) سندھ نیشنل فرنٹ کے چیئرمین نواب ممتاز علی بھٹو نے گڑھی خیرو میں تاریخی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے ملک کو خانہ جنگی میں ڈال کر ہزاروں سولجر اور شہری مراودیئے ہیں اور بوکھی ننگی قوم کے اربوں روپے بھی ضائع کردیئے ہیں۔ صرف اسی دعوے پر کہ طالبان کو نقشے سے مٹادینگے۔

اب جبکہ ان ہی طالبان سے مذاکرات کئے جارہے ہیں جس پر سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اتنا بڑا نقصان کیوں کروایا۔ اس کے ساتھ زرداری اور اس کے ٹولے نے رشوت خوری کے مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کرکے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تصادم والی صورتحال پیدا کردی ہے جو جرنیلوں کی حکمرانی میں پیدا ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ صورتحال جمہوریت کے بنیادی اصولوں کے برعکس ہے۔

ویسے بھی مشرف اور زرداری کی حکمرانی میں چہروں کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ کیونکہ زرداری نے اپنے پاس وہ سب اختیارات رکھے ہیں جو مشرف کے پاس تھے جو صورتحال ملک کی تباہی اور بربادی کی طرف تیزی سے بڑھنے کے متراد ہے جس سے عوام کو بدامنی، رشوت خوری، مہنگائی، بیروزگاری، اناج، پانی کی کمی، بجلی، گیس سمیت زندگی کی دیگر ضروریات سے محروم بنا کر ناقابل برداشت عذابوں میں جکڑ لیا ہے۔

بہرحال ایسی صورتحال پیدا ہونے پر کوئی حیرت نہیں ہے۔ ہم نے تو شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ زرداری ملک کی قیادت کرنے کی حیثیت اور قابلیت نہیں رکھتا اور ایسی جگہ پر بیٹھ کر صرف نقصان ہی کرسکتا ہے جو بات اب صحیح ثابت ہوچکی ہے لیکن اس صورتحال کے ذمہ دار ہم خود ہیں جو نکمے ممبران، وزراء اور صدر کو منتخب کرکے خود کو عذابوں میں جکڑ دیا ہے۔

ان کے جھوٹے وعدوں پر کبھی بھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے تھا کہ یہ منتخب ہو کر بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو گرفتار کرنے اور عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان دلائیں گے۔ انہوں نے بینظیر کے قاتلوں کو پناہ دے کر چھپادیا ہے اور اپنے لئے خوب روٹی کپڑا اور مکان بنایا ہے جس پر کوئی حیرت نہیں ہے کیونکہ وہ یہ وہی پیپلے ہیں جن کو عوام نے دوبار پہلے بھی اقتدار کی کرسی پر بٹھایا تھا جو سال ڈیڑھ کے عرصے سے زیادہ نہیں بیٹھ سکے تھے۔

کیونکہ انہوں نے رشوت خوری اور بدکرداری کی کہ انہیں اقتدار سے گھسیٹ کر اتارا گیا۔ اس دفعہ تو بینظیر بھٹو بھی نہیں ہے اس لئے پہلے سے بھی زیادہ انارکی پیدا ہوچکی ہے۔ اب سوال یہ اٹھا ہے کہ کیا عوام اپنی اور ملک کی تباہی وبربادی پر خاموش تماشائی بنی رہے گی یا پھر حالات میں تبدیلی لا کر اپنی مشکلاتیں ختم کرے گا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ عوام سے جب ان کے منتخب کردہ نمائندوں نے دھوکہ کیا ہے تو عوام میدان میں نکل کر ان ہی نمائندوں کو گھسیٹ کر پھینکا اور نئے نمائندے منتخب کئے۔

اگر عوام بیدار نہ ہوئی تو خونی انقلاب والے حالات پیدا ہوجائیں گے۔ جن پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجائے گا۔ ایک نیا نظام رائج کرنے کا مکمل پروگرام سندھ نیشنل فرنٹ کے پاس موجود ہے جس کو اب مخالفین بھی ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہاں کنفیڈرل نظام کے علاوہ کوئی اور نظام کبھی بیھ کامیاب نہیں ہوگا۔ اسلام آباد کی بادشاہی نے اس ملک کو ایک بار ٹکرا کرنے کے ساتھ اب تباہی کے کنارے پر کھڑا دیا ہے۔ کنفیڈرل نظام میں تمام صوبے خود مختار اور مقتدار ہونگے۔ ہر ایک اپنی دھرتی کا مالک خود ہوگا۔ اسی وعدے پر پاکستان بنا اور 62 سال انکار کے بعد اب وہ وعدہ پورا کرکے ملک کو بچایا جاسکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :