انٹر نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس کے قیام اور دیہی علاقوں میں سائنسی تعلیم کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے،احسن اقبال

منگل 23 مارچ 2010 16:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔23مارچ۔2010ء) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات احسن اقبال نے کہا ہے کہ وہ 23مارچ کے دن اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں انٹر نیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس کے قیام کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے کیونکہ ملک سائنسی تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اس کے لئے 110ملین ڈالرکی رقم قومی و صوبائی حکومتیں، مخیر حضرات اور اوورسیز پاکستانیوں سے اکٹھی کی جائے گی۔

ابتدائی 25ملین ڈالر کی فنڈریزنگ کی مہم جلد شروع کی جائے گی۔ انہوں نے دو چراغ جلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس کا منصوبہ اور دیہی علاقوں میں بنیادی طور پر سائنس کی تعلیم عام کرنے کے منصوبے کے لئے ایک سال انتھک کوشش کریں گے۔

(جاری ہے)

منگل کو مقامی ہوٹل میں بیرسٹر ظفراللہ خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ 23مارچ 1940کو قیام پاکستان کا خواب دیکھا گیا لیکن 63سال گزرنے کے باوجو د مکمل نہیں ہو ا اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کو نظر انداز کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر میرے منصوبے ویژن 2010کو ٹھپ نہ کیا جا تا تو آج پاکستان کم از کم آدھا ملائیشیا یا کوریا بن چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آج تعلیم کے لئے تحریک برپا کرنے کا نکتہ آغاز ہے اس کا مقصد بھی 23مارچ جیسا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اڈھائی کروڑ نوجوان یونیورسٹی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن صرف اس میں سے چار فیصد لوک یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں باقی اس سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بھارت میں یہ شرح 11فیصد ہے۔ یہ نیشنل سکیورٹی کرائسز ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس منصوبے کے لئے کشکول لے کر وزیر اعظم، وزرائے اعلی، کاروبار ی حضرات اور اوورسیز پاکستانیوں کے پاس جائیں گے کیونکہ منصوبے کی ابتدائی تکمیل کے لئے 110ملین ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ 25ملین ڈالر کی فنڈ ریزنگ جلد شروع کر دی جائے گی اور 2011کے آخر تک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں سائنس کی تعلیم عام کرنے کے لئے منصوبہ بنایا جائے گا کیونکہ ہماری تعلیم میں 70 فیصد آرٹس اور 25 فیصد سائنس کے مضامین شامل ہیں اس لئے ہمیں اپنی تعلیم میں 70 فیصد سائنس اور باقی 30 فیصد آرٹس کے مضامین کو شامل کرنا ہو گا جو نوجوان آرٹس کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کیلئے روزگار کے مواقع نہیں ہیں لہذا ہمیں سائنس مضامین کو فروغ دینا ہو گا ۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتوں سے مل کر سائنس کی تعلیم کے فروغ کے اقدامات اٹھائے جائیں گے تاکہ ہم اپنی بنیاد کو مضبوط بنا سکیں۔ اس موقع پرانہوں نے عہد کیا کہ کم از کم ایک سال دن رات اس منصوبے کیلئے وہ وقف کریں گے کیونکہ یہ غیر سیاسی اور غیر منافع بخش منصوبہ ہے انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستانی میرا بھر پور ساتھ دیں گے اور میڈیا بھی اس حوالے سے تعاون کرے گا۔

انہوں نے منصوبے کے پس منظر اور تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 27جون1992ء کو وزیراعظم پاکستان کے دورے ازبکستان کے موقع پر ازبکستان حکومت کی اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ساتھ نجی شعبے میں \"انٹرنیشنل یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اکنامکس\" منصوبے قائم کرنے کے معاہدے پردستخط کئے گئے-جس کا مقصد وسطی ایشیاء کی ریاستوں اور پاکستان میں طلبااور منتظمین کومینجمنٹ کی جدید تعلیم دینا تھا-1992ء اور1999ء کے درمیان پانچ حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ کیس مسلسل التواء کا نشانہ بنتارہا چونکہ ہر حکومت اس پر نظر ثانی کرتی رہی-یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے متعدد بار اس منصوبے کا جائزہ لیا اور بارہا اسے این او سی جار کیا او رسفارش کی کہ حکومت اس منصوبے کو چارٹر جاری کرے- بالآخر 11فروری1999ء کو کابینہ نے اس منصوبے کو چارٹر جاری کرنے کی منظوری دی اور وزارت قانون اورپارلیمانی امور سے کہاکہ وہ چارٹر کی پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرے-بدقسمتی سے 12اکتوبر99ء کو جنرل پرویزمشرف کے مارشل لاء کی وجہ سے یونیورسٹی کو چارٹر جاری کرنے کا کیس ایک بار پھر التوا کا شکار ہو گیا کیونکہ پارلیمنٹ کومعطل کردیاگیا اور ناہی اس کیلئے آرڈیننس جاری کیاگیاچونکہ پارلیمنٹ موجود نہ تھی-بلکہ یونیورسٹی منصوبے کی منظوری کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے سے مشروط کردیا گیا اس کے باوجودکہ یکم مارچ2000ء کو یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے واضح طورپر لکھا تھا کہ وہ پہلے بھی اس منصوبے کی حمایت کرچکی ہے اور ایک بارپھر سفارش کرتی ہے کہ اس منصوبے کو چارٹر جاری کردیاجائے- مشرف حکومت نے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی-بالآخر ستمبر2000ء میں لاہور ہائی کورٹ پنڈی بنچ میں رٹ پٹیشن دائر کی گئی کہ حکومت یونیورسٹی کے چارٹر کو بلاجواز التوا ء کا نشانہ بنا رہی ہے جس پر جسٹس علی نواز چوہان نے وزارت تعلیم اور وزارت قانون کو طلب کیا اور اُن سے رپورٹ مانگی-جس پر وزارت تعلیم اور وزارت قانون نے یہ موقف اختیار کیاکہ یہ منصوبہ ہر طرح سے مطلوبہ معیار پرپورا اترتاہے اور وہ اسے چارٹر جاری کرنے کی حمایت کرتی ہیں-جس پر 13فروری2001ء کو جسٹس علی نوازچوہان نے حکم جاری کیا کہ چونکہ یہ منصوبہ عوامی فلاح اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھتا ہے اور دونوں وزارتوں نے اسے ہر لحاظ مطلوبہ معیار پر پورااترنے والا منصوبہ قرار دیا ہے -لہذا حکومت سات دنوں میں چارٹر جاری کرنے کی کارروائی مکمل کرے-اس فیصلے کی روشنی میں وزارت تعلیم نے چارٹر کی منظوری کیلئے سمری کابینہ کو بھجوا دی-لیکن مئی2001ء کو مشرف کابینہ نے اس سمری کو یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ یہ منصوبہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے معیار پر پورا نہیں اترتا جبکہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا این او سی وزارت کی سمری کے ساتھ منسلک تھا- اس فیصلے کا بنیادی محرک اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ یونیورسٹی منصوبے کے محرک احسن اقبال نے ق لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی اوراپنی وفاداریاں جنرل پرویزمشرف سے نہیں جوڑیں لہذا انہیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایاگیا-مشرف حکومت نے اس منصوبے کو سبوتاژ کرکے پاکستان میں عالمی سطح کی ایسی یونیورسٹی جس کے قیام سے جہاں ایک طرف پاکستان کے نوجوانوں کو بہترین اور جدید تعلیم فراہم ہونے کا موقع ضائع کیا وہاں وسطی ایشیائی ریاستوں سے پاکستان کے تعلقات میں تعلیم کے شعبے کے ذریعے وسعت پیدا ہونے کا ایک انتہائی اہم موقع گنوا دیا-اگر یہ یونیورٹی قائم گئی ہوتی تو آج ہزاروں کی تعداد میں اس سے پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے طلبا و طالبات مستفید ہوچکے ہوتے-ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے ملکیت انکے پاس ہوگی جو اس کے ڈونر ہونگے ۔

ہمارا مقصد اس منصوبے کو دنیا کے بہترین اداروں کے ہم پلہ لانے کا ہے ۔ یہاں پر داخلے میرٹ پر ہونگے اس بنیاد پر داخلہ ختم نہیں ہو گا کہ فیس نہیں ہے یہ امیروں کا ادارہ نہیں ہو گا اور اس کا کیمپس راولپنڈی اور اسلام باد میں ہو گا۔

متعلقہ عنوان :