قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات، 2009-10 کے دوران برطانیہ و امریکہ اور تھائی لینڈ نے اعلی تعلیم کیلئے 242 وظائف کی پیشکش ،فل برائٹ سکالر شپ سپورٹ پروگرام یو ایس اے کے تحت ملک کے 146 طلبہ کو دولت مشترکہ ، برطانیہ اور تھائی لینڈ کیلئے امیدواروں کی نامزدگیاں کی گئیں،وزیر مملکت غلام فریم کاٹھیا

بدھ 24 مارچ 2010 22:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مارچ۔2010ء) قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ رواں سال 2009-10 کے دوران برطانیہ و امریکہ اور تھائی لینڈ نے اعلی تعلیم کیلئے 242 وظائف کی پیشکش کی جبکہ فل برائٹ سکالر شپ سپورٹ پروگرام یو ایس اے کے تحت ملک کے 146 طلبہ کو دولت مشترکہ ، برطانیہ اور تھائی لینڈ کیلئے امیدواروں کی نامزدگیاں کی گئیں بدھ کو قومی اسمبلی کو وزیر مملکت غلام فرید کاٹھیا نے قدسیہ ارشد، سید آصف حسنین کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ تعلیمی نظام میں یکسانیت لانے کی کوششیں کی جائیں گی پبلک سیکٹر کے سکولوں کے سسٹم کو بہتر بنا کر تعلیمی سہولیات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

وزیر مملکت صنعت وپیداوار آیت اللہ درانی نے کہا کہ 716 کمپنیوں کے پرزے ملک میں تیار ہو رہے ہیں آئندہ سال میں مزید نو کمپنیاں آٹو موبائل کی صنعت میں کام شروع کرینگی، رکن اسمبلی تسنیم قریشی کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر کھیل اعجاز حسین جاکھرانی نے کہا کہ 2007-08ء میں 350 ملین روپے پی ایس ڈی پی تھا رواں بجٹ میں مزید 150 ملین روپے ملے ، میر منور تالپور کے سوال پر وفاقی وزیر کھیل نے کہا کہ وزارت پراسیس کے تحت کھیل کے میدان بناتی ہے پھر اسے بولی کے ذریعے تعمیراتی ٹھیکے دیئے جاتے ہیں کھیل کے حوالے سے جاری فنڈز کیلئے باقاعدہ مانیٹرنگ کمیٹی بنائی گئی رکن اسمبلی عبدالرشیدگوڈیلی کے سوال پر کہا کہ ملک میں کپاس کی پیداوار بڑھی ، دھان نایاب ہوگیا ۔

(جاری ہے)

حکومت گارمنٹس انڈسٹری کو ہدایات دے رہی ہے ، امریکہ اور یورپ میں گارمنٹس جاتی ہیں ۔ رواں سال زمیندار کو اس کی فصل کی قیمت بہت اچھی ملی، کسانوں کو اچھا ریٹ فصل کا ملا جو پچھلے ساٹھ سالوں میں نہ مل سکا، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی میں سب سے بڑا ٹیکسٹائل کا حب ہے کپاس کی فصل بہتر ہونے پر لوگ سپنسر زیادہ سے زیادہ لگائیں گے رکن اسمبلی برجیس طاہر کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر مکانات وتعمیرات رحمت اللہ کاکڑ نے جواب دیا کہ پشاور حیات آباد میں ہاؤسنگ اتھارٹی کی کالونی ہے کوئٹہ میں 81 ایکڑ ، تربت میں وفاقی کالونی بنائی جارہی ہے ، کراچی میں 8 ہزار مکانات کا معاہدہ ہوا، پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت مزید چھ ہزار مکانات کا معاہدہ ہوگیا انہوں نے کہا کہ لوگ پرائیویٹ کمپنیوں سے تنگ آچکے ہیں ، حکومت نے نو پرافٹ نو لاس کے تحت کام شروع کررکھا ہے حمیر حیات روکھڑی کے سوال پر وفاقی وزیر رحمت اللہ کاکڑ نے کہا کہ ہاؤسنگ پراجیکٹ لانے کیلئے اراضی کا ہونا ضروری ہے ۔

حکومت نے تین ہزار کنال اراضی وفاقی دارالحکومت میں حاصل کرلی ہے ۔ کم آمدن والے ملازمین کیلئے فنڈز جاری کئے گئے یہ ریکوری پندرہ سے بیس سال میں آسان اقساط میں کی جائیگی۔ حمیر حیات روکھڑی کے سوال پر وزیر مملکت برائے تعلیم غلام فرید کاٹھیا نے کہا کہ تمام ملازمین کو کرایہ کے مکانات نہیں دیئے جاسکتے فنانس ڈویژن سے رقم حاصل کی جاتی ہے وہ بجٹ کے تحت تقسیم کردیا جاتا ہے ۔

رولز کے تحت اساتذہ کو کرایہ مکان ضرور ملے گا۔ وزارت خزانہ کو اس حوالے سے اگاہ کردیا گیا، انہوں نے کہا کہ کنٹریکٹ اساتذہ کو نکالنے کی بجائے ریگولر کرنا چاہتے ہیں ان کی باقاعدہ گیٹیگری بنائی جارہی ہے ۔ بجٹ میں ریگولر کرنے کیلئے اکاؤٹنٹ جنرل کو لکھ دیا، ہمارا کام روزگار دینا ہے رولز ریگولیشن میں لا کر تنخواہیں ضرور ملیں گی چودھری عابد شیر علی کے سوال پر وزیر مملکت آیت اللہ درانی نے کہا کہ سٹیل ملز کو پانچ ارب کا نقصان ہوا۔

پچھلے سال 26 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ کوئلہ اور آئل کے باعث نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان سٹیل کے خرچے کم کرنے کے خرم دستگیر کے سوال پر کہا کہ حکومت نے بیس ہزار ٹن بلوچستان سے آئرن کول لیا جارہا ہے ۔ لوکل پروڈکشن بڑھا کر لوکل افراد کو روزگار دیا۔ وزیراعظم نے سٹیل مل کو بورڈ آف ڈائریکٹر کو ہدایت کی کہ پروڈکشن اور انتظامی افسران کو الگ الگ کریں جس پر عمل شروع ہوگیا انہوں نے کہا کہ سٹیل مل میں کرپشن بارے چیئرمین سٹیل ملز بتا سکتے ہیں وہ عدالت کا سامنا کررہے ہیں ۔

سٹیل مل ملک کیلئے ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے۔اس وقت سترہ ہزار ملازمین سٹیل مل میں کام کررہے ہیں۔ خسارے کو کم کرنے کیلئے اخراجات کو کم کیا جارہا ہے رکن اسمبلی شیخ صلاح الدین کے سوال پر وفاقی وزیر خصوصی اقدامات لعل محمد خان نے کہا کہ مالی سال 2009-10ء میں ڈی ڈبلیو اے پراجیکٹ کیلئے 25 سو ملین روپے مختص کئے گئے جو صوبوں اور وفاقی پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ کو تقسیم کئے گئے اس وقت پنجاب اور بلوچستان میں کل 172 فلٹریشن پلانٹس لگائے گئے خرم منظور وٹو کے سوال پر وفاقی وزیر لعل محمد خان نے کہا کہ وفاقی وزیر کی حقیقت سے مجھے کوئی علم نہیں ہوتا کہ نو سو پلانٹس کیلئے رقم کہاں اور کب صوبوں کو دی گئی اس کا حل بیٹھ کر نکالا سکتا ہے ۔

فلٹریشن پلانٹس صوبوں کے پاس چلے گئے، وفاقی وزیر نے کہا کہ فنڈز کی فراہمی پر وزارت مزید کام کریگی ۔