حکومت امریکہ نوازی پالیسی ترک ‘افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو الگ ‘امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہوجائے موجودہ حکمران بھی ماضی کی پالیسیوں پرعمل پیرا ہیں ‘ڈرون حملے غیر ملکی مداخلت اورقومی سالمیت کے خلاف ہیں ‘پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے جسکی وجہ اسلام اور نظام عدل سے دوری ہے ‘دینی مدارس تعلیم و تربیت سے متعلق اپنے اصل مقاصد تک اپنی توجہ مرکوز رکھیں ،پاکستان کے 131 علما ء و مشائح سیاسی و دینی رہنماؤں کاجامعہ اشرفیہ میں منعقد ہونیوالے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ

جمعہ 16 اپریل 2010 22:09

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16اپریل ۔2010ء) حکومت امریکہ نوازی کی پالیسی کو ترک کرکے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو الگ کرلے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہوجائے‘ موجودہ حکمران بھی ماضی کی پالیسیوں پرعمل پیرا ہیں ‘ڈرون حملے غیر ملکی مداخلت اورقومی سالمیت کے خلاف ہیں اس لئے حکومت انکی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھائے ‘پاکستان اپنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے جسکی وجہ اسلام اور نظام عدل سے دوری ہے ‘دینی مدارس تعلیم و تربیت سے متعلق اپنے اصل مقاصد تک اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور اس نظام کو زیادہ موٴثر بنانے کی طرف پوری کوشش کریں۔

یہ باتیں پاکستان کے 131 علما ء و مشائح سیاسی و دینی رہنماؤں کے جامعہ اشرفیہ میں منعقد ہونیوالے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہی گئیں ۔

(جاری ہے)

اجلاس کی صدارت وفاق المدارس العربیہ کے سربراہ مولانا محمد سلیم اللہ خان نے کی جبکہ اجلاس جسٹس (ر) مولانا مفتی تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمن ، مولانا مفتی رفیع عثمانی، مولانا ڈاکڑ عبد الرزاق اسکندر، مولانا سمیع الحق، مولانا عبد الرحمن اشرفی، مولانا حنیف جالند ھر ی، مولانا عبدالحفیظ مکی، مولانا مفتی عبد الرحیم،مولانا زاہد الراشدی، مولانامحمد احمد لدھیانوی،حافظ حسین احمد، مولانا اللہ وسایا، مولانا عبد الغنی ‘مولانا حنیف جالند ھر ی ، مولانا فضل الرحیم، مولانا انوار الحق، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا محمد امجد خان، مولانا اسعد تھانوی، مولانا اسعد عبید ، مولانا امداد اللہ ، مولانا مجیب انقلابی، حافظ زبیر حسن سمیت اور دیگر علماء و مشائح بھی موجود تھے ۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بحرانوں میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لیے یہ مملکت ِ خداداد حاصل کی گئی تھی اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظامِ زندگی اور اسلامی نظامِ عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔

ملک کے بہترین وسائل ان عوامی تکلیفوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکہ کی مسلّط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے ان ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے، جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہوکر بستیاں کی بستیاں اُجاڑ چکی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے اپنی بالا دستی قائم کرنے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اسلام اور اُمت مسلمہ کے تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کی کارروائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ بے گناہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکہ میں بدترین ذلّت آمیز سلوک کیا جاتا ہے، اور امریکہ مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔

اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے موٴثر اقدامات کرے‘یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہا پسندی کی تحریکیں اُٹھی ہیں‘اگر ملک نے اپنے اس مقصد ِوجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا‘ لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ پُرامن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذِ شریعت کے اقدامات کیے جائیں‘اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بناکر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اور ملک سے کرپشن، بے راہ روی اور فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے موٴثر اقدامات کیے جائیں۔

تمام سیاسی اوردینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذِ شریعت کے مطالبے کو اوّلیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اعلامیے میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کا پائیدار حل بالآخر پُر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ‘ چنانچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس موضوع پر اپنی متفقہ قرارداد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرنے، اور ڈرون حملوں اور غیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا، اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لیے مذاکرات ہی کا طریقہ تجویز کیا تھا، لیکن پارلیمنٹ کی اس قرارداد کو عملاً بالکل نظرانداز کردیا گیا ہے لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمت ِ عملی کو تبدیل کرکے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔

دینی مدارس کا فرض یہ ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے متعلق اپنے اصل مقاصد تک اپنی توجہ مرکوز رکھیں، اور اس نظام کو زیادہ موٴثر بنانے کی پوری کوشش کریں، جس سے اپنے زیرتربیت افراد میں تدیّن، امانت اور سچائی کی اس طرح پرورش کریں کہ وہ اسلام کے زرّیں اصولوں کی صحیح عملی تصویر کے آئینہ دار اور مجسم دعوت و تبلیغ کا ذریعہ بنیں۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ملک بحرانوں کا شکار ہے قتل و غارت کے بازار گرم ہیں دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے رشوت اور بد عنوانی نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں ،عوام بے پناہ مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں حکمران دین کو فروغ دینے کے بجائے بے دینی کو عروج دے رہے ہیں فحاشی اور عریانی عام ہو رہی ہے ان حالات میں نفاذ شریعت کے ذریعے ہی اللہ کو راضی کیا جا سکتا ہے اور ملک کو مشکلات کے دلدل سے نکا لا جا سکتا ہے۔

اعلامیہ میں تمام سیا سی اور دینی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے پر امن جدوجہد کر رہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں ۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اُجاڑنے میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی۔

جگہ جگہ خود کش حملوں اور تخریبی کارروائیوں نے ملک کو بدامنی کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ ان تخریبی کارروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے، اور انہیں سراسر ناجائز قرار دیا گیا ہے، لیکن اس تمام مذمت کے باوجود یہ کارروائیاں مستقل جاری ہیں۔لہٰذا اس صورتِ حال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کارروائیاں کیوں جاری ہیں، اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟اس صورتِ حال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف صاحب نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کردی تھی، اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آرہا ہے، جبکہ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ہمارے ملک کو زخمی کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دی۔