بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کی مسلم لیگ (ن)، اے این پی اور ایم کیو ایم کے وفود سے الگ الگ ملاقاتیں

جمعہ 16 جولائی 2010 17:43

اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔16 جولائی۔2010ء ) مسلم لیگ (ن) اے این پی اورایم کیو ایم نے پاک بھارت تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے پرزوردیتے ہوئے کہاہے کہ جامع مذاکرات دوبارہ شروع ہونے چاہئیں سندھ طاس معاہدے کا احترام کیاجائے دونوں ملک باہمی تجارت کے فروغ اور ویزوں میں نرمی کے معاملے پر بھی غور کریں ۔ ان خیالات کااظہارتینوں ملکوں کے وفودنے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے الگ الگ ملاقاتوں کے دوران کیا ۔

ایس ایم کرشنا نے پنجاب ہاؤس میں مسلم لیگ(ن) کے وفد سے ملاقات کی۔ مسلم لیگ ن کے وفد کی قیادت وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کی اس موقع پر مسلم لیگ(ن) کے ترجمان احسن اقبال، راجہ ظفر الحق، سینیٹر پرویز رشید، ذوالفقار کھوسہ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے جبکہ بھارتی وفد میں سیکرٹری خارجہ نیروپماراؤ اور پاکستان میں بھارتی ہائی کمشنر شرت سبروال بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

بات چیت میں مسئلہ کشمیر، پانی کا تنازعہ، دہشتگردی، تجارت اور دیگر باہمی دلچسپی کے امور زیر بحث رہے۔ اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے کہا کہ بھارت پاکستان کیساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے اور اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہتا ہے۔ بھارت پاکستان کو مضبوط ، مستحکم اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ مضبوط پاکستان بھارت کے مفاد میں ہے۔

ہمارا موقف ہے کہ مذاکرات کے سلسلے کو جاری رہنا چاہیے اور اس مقصد کیلئے میں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو دورہ بھارت کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے معاملات حل کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ موجود ہے جو ان مسائل پر بات چیت کرنے کا بہتر میکنزم ہے۔ اگر اس پر کسی کو اختلافات ہیں تو وہ حل کئے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملاقات میں اعتماد سازی کو فروغ ملے اور بداعتمادی کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ اس میں پیش رفت بھی ہونی چاہیے۔ مذاکرات کی بحالی پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی بنیادی ضرورت ہے ۔ دونوں ملک مسئلہ کشمیر ، پانی کے تنازعے، دہشتگردی اور معمولی جرائم میں ملوث قیدیوں کی رہائی سمیت تمام حل طلب معاملات کو مذاکرات کا حصہ بنائیں۔

شہباز شریف نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایس ایم کرشنا کی خدمات کو سراہا اور ان کے شعری مجموعے کی تعریف کی۔ اس موقع پر دونوں وفود نے تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔ ایس ایم کرشنانے شہباز شریف کو داتا دربار پر چڑھانے کیلئے اپنی طرف سے چادر پیش کی۔ قبل ازیں بھارتی وزیر خارجہ سے ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم کے وفد نے ملاقات کی۔

وفد میں وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ بابر خان غوری اور حیدر عباس رضوی بھی شامل تھے۔ملاقات میں ویزوں کے معاملات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق ستار نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ہونیوالی ملاقات میں ڈیڈلاک کے تاثر کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دورے کو دونوں ممالک کے تعلقات کیلئے سنگ میل قرار دیا ہے۔

انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھارت کے دورے کی دعوت دی ہے جو قبول کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ ایس ایم کرشنا کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کرتی ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے مذاکرات کا سلسلہ خوش آئند ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بات چیت میں واضح کیا ہے کہ جامع مذاکرات پر پیش رفت ہوئی چاہیے اور جامع مذاکرات کا جلد آغاز ہونا چاہیے۔

مسئلہ کشمیر سمیت دونوں ممالک کے درمیان تمام دیرینہ مسائل پر توجہ دی جائے اور باہمی تجارت کو فروغ دیا جائے۔ ہم نے دونوں ملکوں پر ویزوں کے حصول میں لوگوں کو آسانی فراہم کرنے پر زور دیا ہے اور یہ آسانی صرف تاجروں اور صنعتکاروں کیلئے تمام لوگوں کیلئے ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بھارتی وزیر خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ویزوں کے حصول میں آسانی کیلئے کراچی میں خارجہ امور کا دفتر کھولا جائے اور اگر فوری طور پر قونصل خانہ قائم نہیں کیا جاسکتا تو ویزے جاری کرنے کی خصوصی سہولیات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی اور دہشتگردی ایک عالمی ملک ہے ۔ دہشتگرد جنوبی ایشیاء میں مختلف وارداتیں کرتے ہیں ان کی پالیسی ایک ہے تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے علاقائی کوششوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کیلئے پاکستان ، افغانستان اور ایران کیساتھ ساتھ بھارت کا بھی کردار ہونا چاہیے کیونکہ دہشتگردی کی بات ہمیشہ بھارت کی طرف اٹھائی جاتی ہے۔

سارک ممالک کے فورم کو فعال بنانے اور ساؤتھ ایشیاء فری ٹریڈ معاہدے کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ جس امریکہ اور پاکستان کے درمیان سٹرٹیجک ڈائیلاگ ہوتے ہیں اس طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کو جامع مذاکرات سے آگے لے جاکر اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کرنے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں امن و استحکام بھارت میں امن و استحکام کیلئے ضروری ہے اور اسی طرح ہی بھارت کا امن و استحکام پاکستان میں امن و استحکام کیلئے ضروری ہے۔

خطے کے امن و استحکام کیلئے خطے کے تمام ممالک کو سٹرٹیجک ڈائیلاگ پر بات کرنا ہو گی اور خطے کو معاشی طو رپر خوشحال بنانا ہوگا جس کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے بھارتی وزیر خارجہ کیساتھ بات چیت میں صرف پاکستان کا نہیں جنوبی ایشیاء کا مقدمہ پیش کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ چھ ماہ کے دوران تین مرتبہ اعلیٰ سطحی مذاکرات ہو چکے ہیں۔

ہمیں بات چیت سے اچھی توقعات رکھنی چاہیے اور اگر مگر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ پاکستان اور بھارت تعلقات کی جو تاریخ ہے اسے مدنظر رکھا جائے تو راتوں رات کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں مذاکرات کے عمل کو پورا موقع دینا چاہے اور غیر ضروری تبصروں سے اجتناب کرنا چاہیے۔بعد ازاں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر حاجی عدیل کی قیادت میں اے این پی کے وفد نے ملاقات کی۔

وفد میں ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہاشم بابر اور پارٹی کے سینئر رہنما تاج الدین بھی شامل تھے۔ ملاقات میں پاک بھارت تعلقات، دہشتگردی کیخلاف جنگ ، مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے وفد نے ایس ایم کرشن کے دورہ پاکستان کا خیرمقدم کرتے ہوئے پاک بھارت بات چیت کو خوش آئند قرار دے دیا۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حاجی عدیل نے کہا کہ عوامی نیشنل پارٹی کے وفد نے بھارتی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران ویزہ پالیسی نرم کرنے پر زور دیا ہے ۔ ملاقات میں پانی، مسئلہ کشمیر اور دہشتگردی سمیت تمام معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ دونوں ملکوں کو ملکر دہشتگردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دہشتگردوں کو دونوں ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچانے اور امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

دونوں ملکوں کو ملکر امن قائم کرنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ پاکستان اور بھارت کو عوامی سطح پر رابطے بڑھانے اور تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس کیلئے بنیادی مسائل کا حل ہونا ناگزیر ہے۔بعد ازاں بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا تین روزہ دورہ پاکستان مکمل کرنے کے بعد وطن واپس روانہ ہو گئے۔