سپریم کورٹ نے حسین حقانی کی ویڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست مسترد کردی ، میمو کمیشن کے معاملہ میں مداخلت نہیں کر سکتے ، حسین حقانی کمیشن کی ہدایت کے مطابق بیان ریکارڈ کرائیں ،عدالت عظمیٰ کا حکم ، میرے موکل کی زندگی کو خطرہ ہے، بنیادی حقوق کے تحت ویڈیو بیان کا حق ہے ، عاصمہ جہانگیر ،فرض کریں حقانی کو باہر جانے کی اجازت نہ ہوتی اور یہاں دھمکیاں ملتیں تو پھر کیا کرتے؟فاضل ججز کا جواب

منگل 24 اپریل 2012 16:42

سپریم کورٹ آف پاکستان نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وڈیو لنک سے بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست مسترد کر تے ہوئے حکم دیا ہے کہ حسین حقانی کمیشن کی ہدایت کے مطابق بیان ریکارڈ کرائیں جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ سیکیورٹی کمانڈوز کو فن کیلئے رکھا جاتا ہے ، گارڈ تو صرف ایک ہی اوپر والا ہے ، میں کوئٹہ میں بغیر سیکیورٹی کے گھومتا رہا ، کسی کو پتہ نہیں تھا ، میمو کمیشن کو باختیار بنانا چاہتے ہیں ،عدالت معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتی ، حسین حقانی حلف نامہ لکھ کر ملک سے باہر گئے ، عدالتی حکم کا احترام کرکے وطن واپس آنا چاہئے۔

(جاری ہے)

منگل کو حسین حقانی کی درخواست کی سماعت چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں9رکنی بینچ نے کی جس کے دوران سماعت چیف جسٹس نے کہاکہ ہم منصور اعجاز کو نہیں جانتے کہ وہ کہاں کا شہری ہے، حقانی کیوں نہیں آتے؟، انہوں نے واپس آنے کا حلف دیا تھا، انہیں عدالتی احترام میں واپس آنا چاہئے۔اس موقع پر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کی زندگی کو بھی خطرہ ہے، بنیادی حقوق کے تحت میرے موکل کو ویڈیو بیان کا حق ہے