سپریم کورٹ کا سیکریٹری داخلہ کوحسین حقانی کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا حکم، عاصمہ جہانگیر کو دھمکی سے متعلق وزارت داخلہ کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کی ہدایت‘وزارت داخلہ حقانی کی سیکورٹی کے انتظامات مکمل کرکے سماعت سے دو ہفتے قبل رجسٹرارکوآگاہ کرے،عدالت ،سماعت جنوری تک ملتوی، ریاست کی ذمے داری ہے کہ آرٹیکل 9کے تحت شہریوں کو تحفظ فراہم کرے،بتایا جائے حسین حقانی کو کس قسم کی سیکیورٹی کے تحفظات ہیں اور وہ کس قسم کی سیکیورٹی مانگ رہے ہیں،اس کا مطلب ہے حسین حقانی وطن واپس نہیں آنا چاہتے، نہ آئے تو آرڈر جاری کریں گے،پھر انہیں اپنی سکیورٹی پر پاکستان آنا پڑے گا،چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ریمارکس، حکومت حسین حقانی کی سیکیورٹی کو کس طرح ممکن بنائے گی ، اگر وہ پاکستان آجاتے ہیں تو کیا ان کو ملٹری انٹیلی جنس سے تحفظ دیا جائے گا ؟عاصمہ جہانگیر، یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ ملک سے باہر بیٹھا شخص خطرہ محسوس کرے، ہمیں دھمکی کی نوعیت بتائی جائے تو پھراس کے مطابق سیکیورٹی فراہم کرینگے،سیکریٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر

منگل 13 نومبر 2012 13:27

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی این پی۔ 13نومبر 2012ء ) سپریم کورٹ نے میمو کیس کی سماعت آئندہ سال جنوری تک ملتوی کر تے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ آرٹیکل 9کے تحت شہریوں کو تحفظ فراہم کرے،بتایا جائے حسین حقانی کو کس قسم کی سیکیورٹی کے تحفظات ہیں اور وہ کس قسم کی سیکیورٹی مانگ رہے ہیں۔ عدالت نے حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کو ہدایت کی کہ وہ حقانی کو دھمکی سے متعلق سیکریٹری داخلہ کو تحریری طور پر آگاہ کریں۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کوحسین حقانی کی سیکیورٹی یقینی بنانیکا بھی حکم دیا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ حسین حقانی وطن واپس نہیں آنا چاہتے ۔حسین حقانی آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو آرڈر جاری کریں گے ۔

(جاری ہے)

پھر حسین حقانی کو اپنی سکیورٹی پر پاکستان آنا پڑے گا۔ منگل کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے نو رکنی بینچ نے میمو کیس کی سماعت کی ۔

سیکریٹری داخلہ خواجہ صدیق اکبر عدالت میں پیش ہوئے ۔عاصمہ جہانگیر نے سماعت کے دوران اس موقف کو دہرایا کہ ان کے موکل کو پاکستان آنے میں سیکورٹی خدشات ہیں۔ اس پر سیکریٹری داخلہ نے موقف اختیار کیا کہ مناسب ہوگا کہ حسین حقانی کو درپیش خطرات کا جائزہ لیا جائے ۔انھوں نے کہا کہ یہ تاثر نہیں دینا چاہئے کہ ملک سے باہر بیٹھا شخص خطرہ محسوس کرے ۔

ہمیں دھمکی کی نوعیت بتائی جائے تو پھراس کے مطابق سیکیورٹی فراہم کرینگے۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کیا سیکریٹری داخلہ حسین حقانی کو ایم آئی اور آئی ایس آئی سے سیکورٹی دلائیں گے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حسین حقانی کو اگر پاکستان میں دھمکیاں نہیں تھیں تو وہ پی ایم ہاؤس میں کیا کر رہے تھے، یہ خود انہیں آئی ایس آئی سے چھپاتے رہے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ حسین حقانی نے بیان حلفی دیا تھا کہ جب ضرورت ہوئی تو آ جائینگے، بتایا جائے انہیں بلانے کی کیا ضرورت ہے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ منصور اعجاز بھی خطرہ محسوس کررہا تھاجس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ منصور اعجاز کا کیس ہمارے سامنے نہیں تھا۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آپ کے حکم کے بعد کراچی میں امن وامان کی کیا صورتحال ہے ۔

حسین حقانی نہ تو مفرورہیں اور نہ ہی ملزم ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کا حسین حقانی سے گذشتہ روز رابطہ ہوا تھا جس کے بعد حسین حقانی نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ان کی سیکیورٹی کو کس طرح ممکن بنایا جاسکے گا۔عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اگر حسین حقانی پاکستان آجاتے ہیں تو کیا ان کو ملٹری انٹیلی جنس سے تحفظ دیا جائے گا ؟جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی نے چار روز کے نوٹس پر واپس آنے کی تحریری یقین دہانی کرائی تھی، اس بات کی پاسداری کی جائے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے باہر بیٹھ کر ایسی بات نہیں کرنا چاہئے کہ ملک میں حالات اتنے خراب ہیں کہ کسی شخص کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی وطن واپس نہیں آنا چاہتے ۔حسین حقانی آنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو آرڈر جاری کریں گے ۔پھر حسین حقانی کو اپنی سکیورٹی پر پاکستان آنا پڑے گا۔عدالت نے اپنے تحریری حکم میں عاصہ جہانگیر کو کہا ہے کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ حسین حقانی کو کس قسم کی سیکیورٹی کے تحفظات ہیں، عدالت نے سیکریٹری داخلہ کوحسین حقانی کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا بھی حکم دیا ۔ عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی کہ حقانی کی سیکورٹی کے انتظامات مکمل کرکے سماعت سے2 ہفتے قبل رجسٹرارکوآگاہ کرے۔ بعد زاں سماعت آئندہ سال جنوری تک ملتوی کردی گئی ۔