Live Updates

یوسف رضا گیلانی کاسپریم کورٹ میں اپنی نااہلی کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان ،(ن) لیگ جنوبی پنجاب کو صوبہ نہیں بننے دینا چاہتی، حسین حقانی نے خود استعفیٰ دیاتھا جو قربانی نہیں، حسین اصغر ایف آئی اے کے ذریعے میرے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، مجھے نااہل قرار دلوایا اب میرے بیٹوں کے پیچھے پڑے ہیں، پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا تو میرے بیٹے انتخابات میں حصہ لیں گے ورنہ امیدواروں کو سپورٹ کرینگے، عمران خان کا آصف زرداری سے استعفے کامطالبہ ،چوہدری نثار کا گورنرز کو ہٹانے کا مطالبہ غیر آئینی ہے، نگران وزیراعظم کیلئے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی میں مشاورت کی جائیگی، پیپلز پارٹی کا مستقبل روشن ہے، طاہر القادری کے غیر آئینی مطالبات نہیں مانے جا سکتے، سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر آئین کا تحفظ کیا ، خط نہ لکھنے پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں، توقیر صادق اور عدنان خواجہ کی تقرریاں اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر کیں ،میں اور میرابیٹا مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں انکو بھی مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے،رینٹل پاور کی تحقیقات کو شفاف بنانے کیلئے راجہ پرویز اشرف کو مستعفی ہونا چاہئے یا نہیں اس کا فیصلہ میں نے نہیں کرنا سب لوگ حالات دیکھ رہے ہیں،سابق وزیراعظم کا انٹرویو

پیر 28 جنوری 2013 22:14

لاہور/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔28جنوری۔ 2013ء) پیپلزپارٹی کے وائس چیئرمین اورسابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی نااہلی کیخلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کا میرے ساتھ رویہ ”ونڈی کیٹ“ تھا، انہی عدالتوں نے پرویز مشرف کو تمام عہدے رکھنے کی اجازت دی اور آج آصف علی زرداری کے دو عہدوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے، پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کیلئے خود قرار داد منظور کی لیکن آج (ن) لیگ جنوبی پنجاب کو صوبہ نہیں بننے دینا چاہتی، حسین حقانی نے خود استعفی دیا جو قربانی نہیں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی یا نہیں فیصلہ سپریم کورٹ کریگا، حسین اصغر ایف آئی اے کے ذریعے میرے خلاف انتقامی کارروائی کر رہے ہیں، مجھے نااہل قرار دیدیا گیا ہے اور اب میرے بیٹوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا تو میرے بیٹے انتخابات میں حصہ لیں گے ورنہ امیدواروں کو سپورٹ کریں گے، عمران خان کا آصف زرداری سے استعفے کامطالبہ اور چوہدری نثار کا گورنرز کو ہٹانے کا مطالبہ غیر آئینی ہے، نگران وزیراعظم کیلئے پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی میں مشاورت کی جائیگی، میں پہلے دن سے کہتا رہا ہوں کہ وزیراعظم کو نہیں پارلیمنٹ کو آئینی مدت پوری کرنی چاہئے، پیپلز پارٹی کا مستقبل روشن ہے، طاہر القادری کے غیر آئینی مطالبات نہیں مانے جا سکتے، سوئس حکام کو خط نہ لکھ کر آئین کا تحفظ کیا اور خط نہ لکھنے پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں، توقیر صادق اور عدنان خواجہ کی تقرریاں اسٹیبلشمنٹ کی درخواست پر کیں میں اور میرابیٹا مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ان کو بھی مقدمات کا سامنا کرنا چاہئے،رینٹل پاور کی تحقیقات کو شفاف بنانے کیلئے راجہ پرویز اشرف کو مستعفی ہونا چاہئے یا نہیں اس کا فیصلہ میں نے نہیں کرنا سب لوگ تمام حالات دیکھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

سوموار کے روز ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں جتنی دیر وزیراعظم رہا ہر روز امام ضامن باندھ کر جاتا تھا اور ہر قدم قدم پر چیلنج تھے کیونکہ میڈیا والے ہر رات مجھے فارغ کر کے سوتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت کا پہلا مہینہ ہی انتہائی مشکل تھا کیونکہ سینیٹر اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بنتے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور جس کے بعد (ن) لیگ ہم سے الگ ہو گئی اور ان کا خیال تھا کہ حکومت بھی ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اور پیپلز پارٹی کی حکومت آج بھی قائم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں تمام فیصلے مشاورت سے ہوتے ہیں اور میں پیپلز پارٹی کے خاندان کا حصہ ہوں اور سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے پارٹی کا بڑا واضح موقف تھا کہ قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیا جائیگا اور سوئس حکام کو خط نہیں لکھیں گے لیکن میرے جانے کے بعد سپریم کورٹ اور حکومت دونوں نے لچک دکھائی اور معاملہ حل ہو گیا لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سوئس حکام کو لکھے جانیوالے خط میں بڑے واضح انداز میں یہ کہا گیا ہے کہ صدر آصف زرداری کو اندرونی اور بیرون ملک مکمل استثنیٰ حاصل ہے اس لئے مجھے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر کوئی پچھتاوا نہیں اور میں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کیخلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کیلئے صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے بھی مشاورت کی ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر آپ درخواست دائر کرینگے تو آپ کے وکیل چوہدری اعتزاز احسن ہوں گے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میں خود ہی سپریم کورٹ میں پیش ہو جاؤں۔ توقیر صادق اور عدنان خواجہ کی تقرریوں کے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جو سمری آتی تھی میں رولز کے مطابق اس پر دستخط کر دیتا تھا، عدنان خواجہ کی تعلیم کتنی ہے یہ میرا نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا کام تھا اور میں نے دونوں تقرریوں میں کہیں بھی رولز کی خلاف ورزی نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ عبدالقادر گیلانی کے حوالے سے زین سکھیرا کا معاملہ بھی کلیئر ہو چکا ہے اور جہاں تک عبدالقادر گیلانی کی گریجویشن کی ڈگری کے حوالے سے ایف آئی اے کی انکوائری کا تعلق ہے تو ڈگریاں چیک کرنا ایف آئی اے کا کام نہیں اس لئے میرے بیٹے نے قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق بھی جمع کروائی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب موسی گیلانی کو ایوان صدر اور سپریم کورٹ کے سامنے سے گرفتار کیا گیا تو میں نے اسی دن یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب ایوان صدر میں نہیں رہوں گا۔

انہوں نے کہا کہ رینٹل پاور کے حوالے سے راجہ پرویز اشرف کے خلاف آج تک کسی بھی انکوائری میں جرم ثابت نہیں ہوا اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان مقبول لیڈر ضرور ہیں لیکن ان کا صدر آصف زرداری سے استعفی کا مطالبہ غیر آئینی ہے اور چوہدری نثار علی خان بتائیں کہ کس آئین میں یہ لکھا ہے کہ گورنرز کو نگران حکومت سے پہلے ہٹایا جائے اور کیا ان کو اب نظر آیا ہے کہ تمام گورنرز سیاسی ہیں، پنجاب میں مخدوم احمد محمود سے پہلے لطیف کھوسہ اور سلمان تاثیر بھی سیاسی تھے اس وقت یہ کیوں نہیں بولے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات