سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت دیگر سزا یافتہ پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس لانے کیلئے امریکہ ،چین اور سائپرس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کرنے کی سفارش ، کمیٹی نے مختلف ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد، ان پر الزامات سمیت تمام تفصیلات بھی دو ہفتے میں طلب کرلیں،کمیٹی کاویزہ پالیسی پر نظر ثانی کا حکم ، گزشتہ تین سال کے دوران امریکہ سے جاری کئے گئے ویزوں کی تمام تفصیلات پیش کی جائیں، سابق سفیر حسین حقانی نے ہزاروں کی تعداد میں امریکیوں اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کئے ، امریکی ایجنٹوں کی وجہ سے ملک میں دہشتگردی ہو رہی ہیں ،وزارت خارجہ کی نااہلی اور غفلت کے باعث آج پاکستانی پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ،خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے، قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین اور ارکان کا ردعمل کا اظہار

منگل 19 مارچ 2013 20:42

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔19مارچ۔2013ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت دیگر سزا یافتہ پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لئے امریکہ ،چین اور سائپرس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کرنے کی سفارش کر دی ، کمیٹی نے مختلف ممالک میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد، ان پر الزامات سمیت تمام تفصیلات بھی دو ہفتے میں پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ویزہ پالیسی پر نظر ثانی کا حکم دیدیا، کمیٹی نے گزشتہ تین سال کے دوران امریکہ سے جاری کئے گئے ویزوں کی تمام تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق سفیر حسین حقانی نے ہزاروں کی تعداد میں امریکیوں اور بلیک واٹر کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کئے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی ہو رہی ہیں ،وزارت خارجہ کی نااہلی اور غفلت کے باعث آج پاکستانی پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ،خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جائے ،کمیٹی کا اجلاس منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں سینیٹر شاہی سید، سینیٹر نجمہ حمید اور سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے شرکت کی۔ کمیٹی نے وزارت خارجہ کے سیکریٹری کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ان کے خلاف تحریک استحقاق لائی جائے گی۔ چیئرمین نے کہاکہ سیکریٹری خارجہ خود نہیں آسکتے تھے تو انہیں کسی ذمہ دار افسر کو بھجوانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہاکہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان مختلف ممالک میں قید ہیں لیکن وزارت خارجہ کے پاس ان کے مسئلہ پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔

کمیٹی کو سیکریٹری داخلہ کی عدم شرکت کے حوالہ سے بتایا گیا کہ وہ اپنے دفتر میں ایک ضروری اجلاس کی صدارت کررہے ہیں، اس لئے نہیں آسکے۔ کمیٹی نے برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاکہ پارلیمنٹ کی اہمیت مقدم ہے اور تمام افسران پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہیں۔ کمیٹی کوبتایاگیا کہ گزشتہ دو سال کے دوران تقریبا تین ہزار امریکیوں کو ویزے جاری کئیے گئے۔

کمیٹی کے چئیرمین نے ان معلومات کی تصدیق کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ ان کی معلومات کے مطابق امریکہ میں پاکستان کے سابق اور موجودہ سفراء نے ہزاروں کی تعدادمیں ویزے جاری کئے جس کی آڑ میں بلیک واٹر اور دیگر کمپنیوں اور اداروں کے لوگ پاکستان آنے میں کامیاب ہوئے۔ کمیٹی نے امریکہ سے پاکستان کے لئے جاری ہونے والے ویزوں کا تین سال کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

سینیٹر شاہی سید کے سوال پر وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ کراچی ائیرپورٹ سے بھارتی باشندوں کو تین چار گھنٹے کے عارضی قیام کی صورت میں باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ سینیٹر شاہی سید نے کہاکہ ماضی میں کراچی ائیرپورٹ پر تین چار گھنٹے کے قیام کے دوران کئی لاکھ بھارتی ائیر پورٹ سے باہر آکر غائب ہوتے رہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ زائد المعیاد قیام پر چین سمیت کئی ممالک میں پاکستانیوں سے فی یوم کے حساب سے بھاری جرمانے وصول کئے جاتے ہیں اور ایک ماہ زائد مدت پر جیل میں بھی ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے چین میں بھی بہت سارے پاکستانی جیل میں بند ہیں۔

دوست ممالک کو پاکستانیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہیں کرنا چاہئے۔ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ ویزا فیس اور زائد قیام پر چارجز کی وصولی دوطرفہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس معاملے کا جائزہ لیاجائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ معاملات دوطرفہ اور مساوی بنیادوں پر انجام پائیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیرون ملک تمام پاکستان مشنز اور سفارت خانے جاری کئے جانے والے ویزوں کے بارے میں وزارت داخلہ کو آگاہ کرنے کے پابند ہیں اور اس سلسلے میں انہیں باربار خطوط بھی ارسال کئے جاتے ہیں۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ بیرون ملک پاکستانی مشنز اور سفارت خانے ہر ماہ لازما وزارت داخلہ کو جاری کئے گئے ویزوں کے بارے میں آگاہ کرے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ کو پاکستان کے ویزے لے کر آنے والے مختلف ممالک کے شہریوں کی سرگرمیوں پر نظر بھی رکھنی چاہئے اور جو ممالک پاکستان کے شہریوں کے ساتھ اپنے ممالک میں جس طرح کا سلوک روا رکھتے ہیں، اسی طرح کا سلوک ان کے شہریوں کے ساتھ بھی روا رکھاجائے۔

کمیٹی کو بتایاگیا کہ ورک ویزا سرمایہ کاری بورڈ کی منظوری کے بعد جاری ہوتا ہے اور بورڈ میں وزارت داخلہ کے متعلقہ افسر کے علاوہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں۔ 66 ممالک کی کاروباری شخصیات کو آمد پر مختصر مدت کا ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ دنیا کا مختلف ممالک میں قید پاکستانیوں کی تعداد اور ان پر الزامات سمیت تمام تفصیلات دو ہفتوں کے اندر کمیٹی کو پیش کرے۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملے پر کمیٹی کوبتایا گیا کہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ملزمان اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر آمادگی کااظہارکیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پاکستان کے ساتھ اس طرح کے کسی معاہدے کے طے پانے کے بعد ہی واپس لایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کونسل آف یورپ کنونشن یا انٹر امیریکن کنونشن ٹریٹی پر بھی بات چیت کی جاسکتی ہے۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ دس روز کے اندر آگاہ کیاجائے کہ امریکہ سمیت مختلف ممالک سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں۔ بعدازاں صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کمیٹی کے چئیرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ اگر امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ طے پاجائے تو 35 ممالک کے ساتھ پاکستان کا یہ معاہدہ طے پاجائے گا جس سے پاکستانیوں کو فائدہ ہوگا کیونکہ مختلف ممالک میں پاکستانی بڑی تعداد میں قید ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس معاہدے کے لئے این او سی وزارت خارجہ نے دینا ہے لیکن وزارت خارجہ کے حکام نے کمیٹی میں آنے کی زحمت نہیں کی جس کی وجہ سے ان کے خلاف تحریک استحقاق لائیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ اگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو قیدیوں کے تبادلے کے تحت وطن واپس لایاجاسکے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ بیرون ملک پاکستانی قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہیں، انہیں جیلوں میں حلال کھانے سمیت کوئی سہولت میسر نہیں اور وزارت خارجہ کے حکام کے پاس ان کے مسئلہ پر توجہ دینے کی فرصت نہیں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے لئے حکومت نے دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا اور امریکہ میں سابق سفیر نے حکومت پاکستان کیدو ملین ڈالرڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے بجائے انہیں سزا دلوانے پر خرچ کرڈالے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کے دور میں بلیک واٹر کے اہلکاروں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کئے گئے اور ایسے کئی لوگ بغیر ویزے کے بھی ائیر پورٹس سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں امن وامان کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کا اس معاملہ سے گہرا تعلق ہے۔