نیا بجٹ ناکام بجٹ ہے، وزیر خزانہ بجٹ واپس لینے کا اعلان کریں، نائن الیون کے بعد کی پالیسی نے قوم و ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی اور اپنی ٹیم کی غلطیوں اورناکامی کو تسلیم کریں،بجٹ کو واپس لینے کا اعلان کریں، نئی تجاویز کے ساتھ نیا بجٹ لائیں ،عوام کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگا ،حکومت سے ہمدردی کے بجائے غم وغصہ پیدا ہوگا،جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کا پوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب

جمعہ 21 جون 2013 00:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔آئی این پی۔21جون۔ 2013ء) جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ نواز حکومت کا پہلا بجٹ ایک ناکام بجٹ ہے ، اس بجٹ نے عوام اور تاجروں کو بھی ناخوش کیا ہے ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنی اور اپنی ٹیم کی غلطیوں اورناکامی کو تسلیم کریں اس بجٹ کو واپس لینے کا اعلان کریں اور نئی تجاویز کے ساتھ نیا بجٹ لائیں بصورت دیگر وہ اسمبلی سے بجٹ منظور کرانے میں کامیاب تو ہوجائیں گے لیکن عوام کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہوگا اور حکومت سے ہمدردی کے بجائے حکومت کے خلاف غم وغصہ پیدا ہوگا۔

وہ جمعہ کوبجٹ پر تجزیے ،تبصرے اورجائزے کے سلسلے میں ادرہ نورحق میں ” پوسٹ بجٹ سیمینار،، سے صدارتی خطاب کررہے تھے ۔ سیمینار سے معرو ف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی،کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اے کیو خلیل،جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی، پاکستان بزنس فورم کراچی کے صدر ڈاکٹر قاضی احمد کمال و دیگر نے خطاب کیا ، نظامت کے فرائض جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر حافظ نعیم الرحمن نے ادا کئے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری نسیم صدیقی،نائب امراء راجہ عارف سلطان،سابق رکن قومی اسمبلی مظفر ہاشمی اور دیگر بھی موجود تھے۔ سیمینار میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ 9/11 کے بعد اختیار کی جانے والی پالیسیوں نے ملک اور قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ان پالیسیوں کو فی الفور تبدیل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ اس بجٹ نے ثابت کیا ہے کہ نواز حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ نواز حکومت کی اس بجٹ سے سبکی اور بدنامی ہوئی ہے ان کے پاس اس کا دفاع کرنے کیلئے بھی کوئی دلیل نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ جی ایس ٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد یہ چیزیں کھل کر سامنے آئیں کہ جی ایس ٹی میں تو صرف ایک فیصد اضافہ ہوا مگر اشیاء کی قیمتو ں میں اضافہ 17 فیصد تک ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایک عام آدمی کا تاثر ہے کہ زرداری کے دور میں تیر لگا اور فوج کا خون بہا اور شیر کے دور میں عوام کا گوشت تک نوچ لیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہٹ دھرمی کی انتہا کردی ہے اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وہ کوئی متعدل بات سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں ۔ فوجی دور ہو یا جمہوری حکومت بجٹ ہمیشہ بیرونی ادارو ں کی ڈکٹیشن کے مطابق ہوتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ قومی معیشت میں تبدیلی اقتصادی میدان میں انقلاب اور بجٹ کو عوام دوست بنانے کیلئے ایسے ماحول اور حالات کی ضرورت ہے جس میں کرپشن نہ ہو ، عوام اور تمام طبقات کے اعتماد کو بحال کئے بغیر حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اس کیلئے اہل اور جرات مند قیادت کی ضرورت ہے جو بیرونی طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔

انہو ں نے کہاکہ حکمران نمائشی اقدامات سے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور سادگی کا صرف ڈھونگ رچارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی نے بجٹ کیلئے 8 نکاتی روڈ میپ دیا تھا اس پر عمل کر کے ہی حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کو سود سے پاک کیا جائے اور اسلامی معاشی نظام کے مطابق اقدامات کئے جائیں عدالت عظمیٰ کو اس حوالے سے بھی نوٹس لینا چاہیے کیونکہ سود سے پاک معیشت ایک آئینی تقاضہ ہے ، بلاشبہ ہڑتالوں سے قومی معیشت کو شدید نقصان پہنچتا ہے ، جماعت سلامی ہڑتالوں کے خلاف قومی اتفاق رائے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں اور اقدامات کی حمایت کرے گی ۔

انہوں نے کہاکہ زرعی آمدنی اور اس پر ٹیکس کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔ توانائی کا بحران ڈیموں کی تعمیر اور سستی بجلی کے بغیر حل نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے حالات تشویشناک حد تک خراب ہوتے جارہے ہیں اور نفرت اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ امریکا اب افغانستان سے نکلنے والا ہے ، دوحہ میں طالبان کو دفتر کھولنے کا موقع دینا امریکا کیلئے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوشش ہے لیکن اس دوران پاکستان کو کمزور بنانے کی سازش بھی جاری ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے کہاکہ ٹیکس چوروں ، قومی دولت لوٹنے والوں کیلئے پاکستان جنت بنانے کا بجٹ ہے ، مسلم لیگ نے اپنا جو منشور پیش کیا تھا موجودہ بجٹ اس منشورسے مکمل متصادم ہے۔ ہر قسم کی آمد نی پر ٹیکس کی بات تو مسلم لیگ (ن) نے کی تھی مگر بجٹ میں ایس نہیں کیا گیا۔ کالے دھن کو سفید بنانے کو روکنے کی بات کی گئی تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ بجٹ چورو ں کو تو چھوٹ دیدی گئی لیکن جو لوگ ایمانداری سے ٹیکس ادا کررہے ہیں ان پر مزید ٹیکس لگادیاگیا ۔ ٹیکسوں کا نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ ٹیکس چوری کرنے میں آسانی ہو۔ انہوں نے کہاکہ ان حالات میں پاکستان کی معیشت کی خود مختاری کی بات کرنا دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تعلیم کی مد میں قومی تعلیمی پالیسی میں جتنی رقم خرچ کرنے کی بات کی گئی ہے وہ آج بھی خرچ نہیں کی جارہی ۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت آئی ایم ایف سے قرضہ لیا جانا ایک سازش ہے قومی سلامتی او رمعیشت کو تباہ کرنے کی سازش ہے ۔ آصف علی زرداری نے دہشتگردی کے نام پر جنگ کے حوالے سے امریکا اور برطانیہ نے جو سودا کیا تھا وہ ملک اور قوم کے ساتھ ایک دھوکا تھا۔ انہوں نے کہاکہ جس سازش کے تحت شوکت ترین زرداری اور گیلانی نے سازش کر کے قرض لیا تھا موجودہ حکومت اس کو ادا کرنے کیلئے جو قرضہ لے رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس سازش میں شریک ہے اور معیشت کو مزید تباہ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ افغانستان کے بعد اب جنگ کا فوکس پاکستان بن رہا ہے اور یہ اس گریٹ گیم کا حصہ ہے جو عالمی سطح پر کھیلا جارہاہے ۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف اپنے منشور کے مطابق اگر بجٹ بنا دیں توہمیں منظور ہوگا وہ بجٹ عوام کیلئے فائدہ مند ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ نوازشریف سود سے پاک معیشت کے خلاف جو اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی تھی وہ واپس لے لیں اورمعیشت کو سود سے نجات دلائیں ۔

زکواة کے نظام کو اس کی روح کے مطابق نافذ کریں تو معیشت بہتر ہوگی۔ موجودہ بجٹ کو اس صورت میں منظور نہیں ہونا چاہیے۔اے کیو خلیل نے کہا کہ یہاں بجٹ تیار کرنے والے مستند کرپٹ ہوتے ہیں بجٹ پیش کرنے والے ملک میں ہی نہیں ہوتے اور جو منظور کرتے ہیں ان کو NTS تک کا پتا نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہاکہ عوام کیلئے بجٹ A پیش کرے یا B مشکلات ہی مشکلات ہیں ، بجٹ عوام کے لئے صرف جھیلنے کیلئے ہوتا ہے اور عوام مجبورا اسے جھیلتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ بیورو کریسی اس وقت کی تلاش میں تھی کہ اسے اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملے اور اس بجٹ میں اسے یہ موقع مل گیا۔ انہوں نے کہاکہ اسحاق ڈار نے باالفاظ دیگر عوام کو یہ پیغام دیا کہ اگر فوج اپنے اخراجات کم کرلے تو عوام پو بوجھ کم ہوسکتا ہے یہ بہت اہم بات ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام پر بوجھ ڈالنے کی ذمہ داری فوج پر عائد ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں سالانہ 100 ہڑتالیں ہورہی ہیں اس سے نقصان کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، ملکی سطح پر یہ بات کی جائے اورکراچی کونو اسٹرائیک زون قرار دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ہم نے اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہے اور عوام کو ریلیف دینا ہے تو ملک میں ایک ایسا ٹیکس کلچر لانا ہوگا کہ عوام کو اور ٹیکس دینے والے کو پتا ہو کہ اس کے دئیے گئے پیسے درست جگہ خرچ ہوں گے ۔

محمد حسین محنتی نے کہاکہ حکومت تبدیل ہوگئی اورلوگوں کو امید اور توقعات تھیں کہ کچھ تبدیلی بھی آئے گی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ نئے بجٹ نے حالات کومزید خراب کردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جی ایس ٹی پوری معیشت پر حاوی ہے اور اس میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اشیاء کی قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں جو اب عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت نے مہنگائی اور کرپشن کے خاتمے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے ،ہمارا بڑا مسئلہ قرضوں کی معیشت ہے مگر آج بھی آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلارہے ہیں اور قرضوں کی معیشت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ قرضوں کی معیشت اور خسارے کا بجٹ ختم ہونا چاہیے ، سودی معیشت ختم ہونی چاہیے۔ڈاکٹر قاضی احمد کمال نے کہاکہ بجٹ ہمیشہ آمدنی کی بنیاد پربنایا جاتاہے مگر بدقسمتی سے ہم پہلے اخراجات کاتخمینہ لگاتے ہیں اور پھر بجٹ بناتے ہیں اس لئے بجٹ خسارے کا ہوتا ہے اور وہ عوام کیلئے نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ پچاس فیصد محصولات صرف قرضے اتارنے میں خرچ ہوتے ہیں اس کے بعد فوجی بجٹ ، اور روزانہ کے اخراجات ہیں جن کو پورا کیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پرٹیکس ضرور لگایا جاتا ہے مگر بڑے حصے کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ بجٹ جو لوگ بنا رہے ہیں ان کا تعلق اس بڑے حصے سے ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ صرف اعدادوشمار کا کھیل ہے ، انرجی سیکٹر کے اندر سے جب تک کرپشن ختم نہیں کی جاتی اس وقت تک کوئی بہتری اور تبدیلی نہیں ہوسکتی۔