ریلوے کی نجکاری کی گئی تو استعفیٰ دیدوں گا ،کوئی اور وزارت بھی قبول نہیں کروں گا، خواجہ سعد رفیق، اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم ناکام ہوگئے ،عملی اقداما ت کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ، چین سے 75 انجنوں کی درآمد کے منصوبوں کو منسوخ کرکے ایک ارب کا نقصان برداشت کرلیا لیکن 11ارب کے نقصان سے بچ گئے،15اکتوبر سے ہر ٹرین کیساتھ ڈائننگ کار شامل کی جائیگی ،کالا شاہ کاکو سے قصور کے درمیان میٹرو ٹرین چلائی جائیگی، سینئر صحافیوں سے گفتگو

پیر 7 اکتوبر 2013 20:07

لاہور (اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔7اکتوبر۔2013ء) وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ریلوے کی نجکاری کی گئی تو استعفیٰ دیدوں گا ، اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم ناکام ہوگئے ، ریلوے کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کیلئے ہر ممکنہ اقداما ت اٹھا رہے ہیں اور اسکے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں،15اکتوبر سے ہر ٹرین کے ساتھ ڈائننگ کار شامل کی جائے گی ،لاہور میٹرو ٹرین کا منصوبہ زیر غورہے جس کے تحت کالا شاہ کاکو سے قصور کے درمیان 96کلو میٹر تک میٹرو ٹرین چلائی جائے گی جبکہ کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے تعاون سے سرکلر ٹرین چلائیں گے ، چین سے 75 انجنوں کی درآمد کے منصوبوں کو منسوخ کرکے ایک ارب روپے کا نقصان برداشت کرلیا لیکن 11ارب کے نقصان سے بچ گئے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوموار کے روز لاہور میں سینئر صحافیوں سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر ریلوے نے اس موقع پر اپنے محکمے کی 110روز کی کارکردگی کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری اس وقت کی جاتی ہے جب وہ ادارہ حکومت پر بوجھ ہو لیکن ہم ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور 110دنوں میں مقررہ ہدف سے ڈھائی ارب سے زیادہ آمدنی اسکے ٹریک پر واپس آنے کا ثبوت ہے ۔

ریلوے کا یومیہ خسارہ دس کروڑ سے کم کر کے آٹھ کروڑ پر لے آئے ہیں اور آنیوالے دنو ں ریلوے کا خسارہ مزیدکم کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ٹرینوں کے کرائے نہیں بڑھائے گئے ۔ ہم مسافروں کو ٹرانسپورٹ سے ریلوے کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں اور اسکے لئے انہیں کم کرائے میں آرام دہ سفر کی سہولیات کے لئے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے میں فریٹ آمدنی کا ذریعہ ہے لیکن گزشتہ ادوار میں اس شعبے کو مکمل تباہی کا شکار کر دیا گیا ۔ ہم نے فریٹ ٹرینوں کی تعداد بھی بڑھائی ہے اور آئندہ کے لئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ فریٹ کا کنٹریکٹ کسی دوسری کمپنی کو نہیں دیا جائیگا ۔انہوں نے کہا کہ اگر ریلوے کی نجکاری کی گئی تو استعفیٰ دے دوں گا اور اس کے علاوہ کو ئی اور وزارت بھی قبول نہیں کروں گا، ریلوے کے حالا ت بہتر بنانے کے اقدامات کر رہے ہیں اس سلسلے میں ترقیوں اور تبادلوں میں میرٹ پر کو ئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ عہدے کے قلمدان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے یہی کا کہ ہر منصوبے میں شفافیت ہو گی ۔ چینی کمپنی سے 75انجنوں کی خریداری کا معاہدہ ریلوے کی بہتری کیلئے منسو خ کیا۔اس سے ایک ارب کا نقصان ہوا لیکن ریلوے کو 11ارب کے نقصان سے بچا لیا ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ریلوے کے پاس تین دن کا ذخیرہ ہوتا تھا لیکن آج اسے بڑھا کر 12روز تک لے آئے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ریلوے کی اراضی فروخت نہیں کی گئی بلکہ اس کا کمرشل استعمال کر کے منافع کمایا جائے گا۔آئندہ اس معاملے میں بھی بند ر بانٹ او رلوٹ سیل کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔وزیر ریلوے نے مزید کہا کہ ریلوے کا خسارہ رواں سال 33.5 ارب روپے متوقع تھا جس میں خاطر خواہ کمی لائی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میٹرو ٹرین منصوبہ بھی زیر غور ہے جو ایل ڈی اے اور ریلوے کے تعاون سے مکمل کیا جائیگا جس کے ذریعے کالا شاہ کاکو کو قصور سے ملا دیا جائیگا یہ 96کلو میٹر کا ہوگا اور اس منصوبہ سے جہاں آلودگی کم ہو گی وہاں ریلوے کو آمدنی بھی حاصل ہو گی۔

انہوں نے مزیدکہا کہ بلوچستان میں سکیورٹی بڑا مسئلہ ہے اور وہاں رات کو ٹرین آپریشن ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بطور سیاسی کارکن آپریشن کا مخالف ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی ٹرینوں پر حملے کرے اور ہم ان کو پھولوں کا گلدستہ پیش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے میں بھارت کی طرز پر رئیل سٹیٹ بنائی جائیگی،یہ اصولی فیصلہ کیا ہے کہ ریلوے کی اراضی کو فروخت نہیں کیا جائیگا بلکہ اسے کمرشل استعمال میں لا کر اس سے آمدنی حاصل کی جائے گی ۔

ریلوے کی اراضی کچھ تو ادارہ کے نام ہے لیکن کچھ کا ٹائٹل ہی ریلوے کے نام نہیں، صوبوں کو چاہیے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ریلوے کی اراضی ریلوے کے نام کریں۔ انہوں نے بتایا کہ اے سی اور اکانومی کلاس کے کرایوں میں مزید کمی کی جارہی ہے جس سے مسافروں کی تعداد اور ریلوے کی آمدنی میں مزید اضافہ ہو گا۔انہوں نے کہا کہ چین سے 58 لوکوموٹیوز نئے منگوائے جارہے ہیں جو پہلے سے بہتر ہیں ،پہلے مرحلے میں آنیوالے 23 جدیدلوکوموٹیوز کی کارکردگی دیکھیں گے اور اسکے بعد باقی منگوانے کا فیصلہ کریں گے ۔

نئے انجنوں میں سے زیادہ سے فریٹ سیکٹر جبکہ ایک تہائی کو مسافر ٹرینوں کیلئے استعمال میں لایا جائیگا ۔ ریلوے کے فریٹ سیکٹر کو منافع بخش بنانے کیلئے اس وقت کم از کم 100 لوکوموٹیوز کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد، مری، مظفر آباد پراجیکٹ کی سٹڈی جاری ہے اور اس پراجیکٹ پر ریلوے اور سی ڈی اے ملکر کام کرینگے۔ پشاور تا کراچی ٹرین کو دوبارہ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر لیکر جائینگے جس کے بارے میں وزیر اعظم کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ لاہور سے کراچی کے درمیان 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین چلانے کیلئے 300 ارب روپے درکار ہیں جس کیلئے چینی کمپنیوں کو بھی پیشکش کی جاچکی ہے۔