پاکستانیوں کی حیران کن تعداد ڈرون حملوں کے حق میں ہے ، برطانوی جریدہ

ہفتہ 19 اکتوبر 2013 14:07

کراچی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19اکتوبر 2013ء) برطانوی جریدے”اکنامسٹ“نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک حیرت انگیز تعداد ڈرون حملوں کے حق میں ہے۔ رواں برس22ڈرون حملوں میں کوئی بھی شہری ہلاک نہیں ہوا، ڈرون حملے ان عسکریت پسندوں کو قتل کر رہے ہیں جو معصوم لوگوں کو قتل کر تے ہیں، حکومت پاکستان نے سی آئی اے کے پروگرام کو اپنی خفیہ آشیر باد دے رکھی ۔

جریدے کے مطابق قومی سروں میں پاکستانیوں کی اکثریت افغان سرحد کے قریب قبائلی پٹی میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملوں کی مخالفت میں نظر آتے ہیں۔زیادہ تر پاکستانی ڈرون حملوں کوملکی خودمختاری ، امریکی تکبر اور شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سمجھتے ہیں۔جریدے نے اس سلسلے میں قبائلی علاقوں کے 20رہائشیوں سے بات چیت کی جس میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملوں میں شہریوں کی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوتیں۔

(جاری ہے)

شمالی وزیرستان کے ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ اصل تصویر دکھانے کی کوئی ہمت نہیں کرتا۔ ڈرون حملے ان عسکریت پسندوں کو قتل کر رہے ہیں جو معصوم لوگوں کو قتل کر تے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی ایک اسکول کی منتظم صوفیہ خان نے سیکڑوں ڈرون مخالف کارکنوں کے ساتھ قبائلی علاقوں (فاٹا ) کا سفر کیا تو وہ ڈرون حملوں کے حق میں بعض قبائلیوں کی رائے سن کر وہ دنگ رہ گئی ۔

جنوبی وزیرستان کے ایک شخص نے گرم جوشی سے بتایا کہ وہ اور اس کا خاندان چاہتا ہے کہ ڈرون حملے جاری رہیں اور ان کے گھروں کے اوپر فضاوٴں میں ڈرونز گشت کریں۔ غیر ملکی صحافیوں کو ان علاقوں تک رسائی مشکل ہے۔لیکن خطے کے کئی ماہرین اور محققین اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے ۔لوگوں کی قلیل تعداد اس بارے اظہار خیال کو تیار ہوتی ہے۔جریدہ لکھتا ہے کہ فاٹا میں سروے کرنا انتہائی مشکل امر ہے۔

ان علاقوں میں2009کا سروے میں52فی صد نے ڈرون حملوں کو درست قرار دیا اور 60 فیصد کا خیال تھا کہ ان حملوں سے عسکریت پسند گروپ کمزور ہوئے۔ دیگر سروے بھی ڈرون حملوں کے حق میں بہت کم شرح دکھاتے ہیں۔ان ڈرون حملوں کی درستگی کے بارے امریکی دعووں کی تصدیق مشکل سے ہوتی ہے۔زیادہ تر ان حملوں کی معلومات ان اعداد وشمار پر مشتمل ہے جو مانیٹرنگ گروپ اکھٹا کرتے ہیں اور ان کا انحصار بھی میڈیا رپورٹ پر ہے۔

تاہم برطانوی تھنک ٹینک کا سروے میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا کہ رواں برس22ڈرون حملوں میں کوئی بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ حکومت پاکستان نے سی آئی اے کے پروگرام کو اپنی خفیہ آشیر باد دے رکھی ۔ایک سابق امریکی اہلکار کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں پر ملکی غم و غصہ بھی دیگر مسائل پر بات چیت میں مفید ہو سکتا ہے اور حکومت پاکستان کو عسکریت پسندوں کے حملوں کا بھی خدشہ ہے۔

پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ڈرون کے حامی بھی اس پر بے تکلفی سے بات کرنے ہچکچا تے ہیں۔ بہت سے مبصرین دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو صاف کرنے کے لئے حکومتی اقدامات کی غیر موجودگی میں ڈرون کی منظوری کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن وہ پرنٹ میں ایسا کہنے کی ہمت نہیں کرتے۔2010 میں سیاست دانوں اور غیر سرکاری تنظیموں کے ایک گروپ نے ڈرون کی حمایت میں” پشاور اعلامیہ“ شائع کیا۔اس کے بعد ان کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ان کے خلاف کوئی بھی بات کرے اسے ختم کردیا جاتا ہے۔جریدے نے صوفیہ خان کے حوالے سے لکھا کہ وہ چاہتی ہے کہ ڈرون حملے ختم ہوں اگر حکومت غیر ملکی امداد کے بغیر کچھ کر سکتی ہے تو اسے خود اقدامات اٹھانے چاہیے۔

متعلقہ عنوان :