عراق سے فوجی انخلاء پراوباماسے اختلاف تھے،سابق امریکی وزیردفاع

مشرق وسطیٰ کیلئے امریکی پالیسیاں ناکام،ہمیں عراق اور شام کو القاعدہ کا نیا اڈا بننے سے روکنا ہوگا،کتاب میں انکشافات

اتوار 5 جنوری 2014 12:25

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار تاز ترین۔5 اکتوبر 2014ء) امریکا کے سابق وزیردفاع لیون پینیٹا نے شام میں فوجی کارروائی میں تاخیر اور پس وپیش سے کام لینے پر صدر براک اوباما پرتنقید کی ہے۔لیون پینیٹا نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل نئی کتاب میں لکھا ہے کہ صدر اوباما شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ردعمل کے اظہار میں ناکام رہے تھے جس سے دنیا کو ایک غلط پیغام گیا تھا۔

اس کتاب میں انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کے 2011 میں عراق سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے معاملے پر بھی صدر اوباما کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔براک اوباما نے اگست 2012 میں کہا تھا کہ اگر صدر بشارالاسد اپنے ہی شہریوں کے خلاف کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہیں تو امریکا شام کی خانہ جنگی میں فوجی مداخلت کی مخالفت کے فیصلے پر نظرثانی کرے گا۔

(جاری ہے)

انھوں نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو سرخ لکیر قرار دیا تھا لیکن جب شامی صدر کی فورسز نے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو صدر اوباما نے ازخود شامی رجیم کے خلاف فوجی کارروائی کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا اور اس کے بجائے انھوں نے کانگریس سے مشاورت کا عندیہ دے دیا تھا۔2013 کے وسط میں کانگریس کی اکثریت نے شام میں امریکی فوج کی کارروائی سے اتفاق نہیں کیا تھا۔

لیون پینیٹا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ نتیجہ امریکا کی ساکھ کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔جب صدر کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کوئی ریڈ لائن کھینچتے ہیں تو یہ بڑی اہم بن جاتی ہے۔اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اگر اس کو عبور کیا جائے گا تو وہ کارروائی کریں گے لیکن بشارالاسد نے صدر اوباما کے بار بار کے انتباہ کو نظر انداز کیا تھا۔انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کے سابق عہدے دار جب سبکدوش ہوتے ہیں تو پھر کتابیں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں اور میرے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے۔

کم سے کم کسی کو اتنا تو موقع دیں کہ وہ منصب سے فارغ ہوجائے۔سابق وزیردفاع نے 2012 میں لیبیا کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے کے محاصرے اور وہاں پیش آئے تشدد کے واقعے پر بھی روشنی ڈالی ۔ان کا کہناتھا کہ اوباما انتظامیہ کو ایسا کوئی اشارہ نہیں ملاتھا کہ 11 ستمبر2011 کے حملوں کی برسی کے موقع پر کوئی حملہ ہوسکتا ہے۔بن غازی میں مسلح افراد کے حملے میں لیبیا میں متعین امریکی سفیر کرس اسٹیوینز ہلاک ہوگئے تھے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ابتدا سے سی آئی اے کی جائزہ رپورٹ یہ تھی کہ مشتعل مظاہرین کے ایک گروپ نے حملہ کیا تھا اور یہ کوئی منظم انداز میں حملہ نہیں تھا۔بظاہر بہت سے مظاہرین تو راکٹ گرینیڈ لانچروں کے بغیر نظر آرہے تھے۔پینیٹا نے سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی کو بھی ملک میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذمے دار قراردیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں عراق میں فرقہ وارانہ تقسیم میں اضافہ ہوا تھا۔

ان کے بہ قول عراق سے آنے والی خبروں سے عیاں ہے کہ میرے نزدیک اب لڑائی کا کوئی اختتام نہیں ہے اور2014 میں داعش کے حملے کے بعد یہ خطرہ پیدا ہوچکا ہے کہ عراق القاعدہ کی نئی محفوظ جنت بن سکتا ہے۔اس لیے ہمیں عراق اور شام کو القاعدہ کا نیا اڈا بننے سے روکنا ہوگا۔

متعلقہ عنوان :