مفتی عثمان یار خان اور ساتھیوں کی شہادت، علما ایکشن کمیٹی کی اپیل پر کراچی میں ہڑتال ،سڑکوں پر سناٹا ، پبلک ٹرانسپورٹ بند

جمعہ 24 جنوری 2014 16:42

مفتی عثمان یار خان اور ساتھیوں کی شہادت، علما ایکشن کمیٹی کی اپیل پر ..

کراچی ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24جنوری 2014ء ) جمعیت علمائے اسلام (س) کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مفتی عثمان یار خان اور ان کے ساتھیوں کی شہادت اور عام شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خلاف علما ایکشن کمیٹی کی اپیل پر جمعہ کو کراچی میں ہڑتال کی گئی ۔ ہڑتال کے باعث کراچی کی سڑکوں پر سناٹا رہا اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ دفاتر اور تعلیمی اداروں میں حاضری نہ ہونے کے برابر رہی ۔

مختلف جامعات نے جمعہ کو ہونے والے امتحانات ملتوی کردیئے تھے تاہم نماز جمعہ کے بعد شہر میں معمولات زندگی بتدریج بحال ہو گئے اور شام کے اوقات میں پبلک ٹرانسپورٹ چلنا شروع ہوگئی تاہم ان کی تعداد بہت کم تھی ۔ تفصیلات کے مطابق علما ایکشن کمیٹی کی اپیل پر جمعہ کو کراچی میں کی جانے والی ہڑتال کے موقع پر سناٹا دیکھنے میں آیا ۔

(جاری ہے)

تمام کاروباری مراکز اور مارکیٹیں مکمل طور پر بند رہیں ۔

شہر کی شاہراہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر تھی اور انتہائی کم تعداد میں 6 سے 11 سیٹر سی این جی اور چنگ چی رکشے چل رہے تھے ۔ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے سبب شہریوں کو صبح کے اوقات میں اپنے روز مرہ کے کاموں پر جانے میں شدید دشواری کا سامناکرنا پڑا ۔ بس اسٹاپوں پر شہریوں کا رش دیکھنے میں آیا ۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکشہ اور ٹیکسی والوں نے شہریوں سے منہ مانگے کرائے وصول کئے ۔

شہر کے مختلف علاقوں میں چھوٹی بڑی دکانیں بھی بند رہیں ، جس کی وجہ سے شہریوں کو کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم بعض علاقوں میں کریانہ ، دودھ اور بیکریاں کھلی ہوئی تھیں ۔ ہڑتال کے باعث سبزی اور دودھ منڈیوں میں بھی کام متاثر ہوا اور بیشتر علاقوں میں دودھ اور سبزیوں کی ترسیل نہیں ہو سکی ۔ ہڑتال کے باعث سرکاری اور نجی دفاتر ، فیکٹریوں اور ملوں میں ملازمین کی حاضریاں کم دیکھنے میں آئیں ، جو سرکاری تعلیمی ادارے صبح کے اوقات میں کھلے ، ان میں اساتذہ اور طلباء کی تعداد انتہائی کم تھی ، جس کی وجہ سے صبح کے اوقات میں ہی یہ تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ۔

پرائیویٹ اسکولز کی مختلف ایسوسی ایشنز کی جانب سے نجی اسکول بند رکھنے کے اعلان کے باعث تمام نجی اسکولز بند رہے ۔ ہڑتال کے باعث کارگو کی ترسیل کا کام بھی متاثر ہوا اور انٹر سٹی بسیں بھی شہر کے اندرونی بس اسٹاپوں پر نہیں پہنچ سکیں ، جس کی وجہ سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اندرون اور بیرون ملک آنے اور جانے والے مسافروں کو ایئرپورٹ اور ریلوے اسٹیشن پہنچنے اور اندرون شہر آنے میں مشکلات درپیش آئیں ۔

ہڑتال کے موقع پر شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے ۔ سندھ سیکرٹریٹ ، سندھ اسمبلی ، قونصل خانوں اور حساس مقامات پر سکیورٹی کی اضافی نفری تعینات کی گئی تھی ۔ ہڑتال کے باعث شہر کے بیشتر پیٹرول پمپس بند رہے ، جس کی وجہ سے شہریوں کو فیول کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ تاہم نماز جمعہ کے بعد شہر کے بیشتر علاقوں میں معمولات زندگی بتدریج بحال ہوگئے اور دکانیں کھل گئیں اور شاہراہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ چلنا شروع ہوگئی تاہم ان کی تعداد کم رہی ۔

متعلقہ عنوان :