بلوچستان اسمبلی اجلاس، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزراء کو اختیارات اور اپنے رویئے میں تبدیلی نہ لائی تو مخلوط حکومت نہیں چل سکے گی،نواب ثناء اللہ خان زہری کی کوئٹہ آمد پر دو ٹوک الفاظ میں بات کی جائیگی ،مزید زیادتیاں برداشت نہیں کریں گے، اختیارات نہ دیئے گئے تو آزاد بنچوں پر بیٹھیں گے ،(ن) لیگ کے وزراء کا انتباہ

جمعہ 31 جنوری 2014 22:16

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔31 جنوری ۔2014ء) بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے انتباہ کیا ہے کہ اگر وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزراء کو اختیارات اور اپنے رویئے میں تبدیلی نہ لائی تو یہ مخلوط حکومت نہیں چل سکے گی پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ خان زہری کی کوئٹہ آمد پر دو ٹوک الفاظ میں بات کی جائے گی مزید زیادتیاں برداشت نہیں کریں گے اختیارات نہ دیئے گئے تو آزاد بنچوں پر بیٹھیں گے اسپیکر میر جان محمد جمالی نے اسمبلی کے اجلاس میں توتک واقعے سے متعلق ایوان میں تفصیلات پیش کرنے کو کہا جس پر صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے احتجاجاً اجلاس سے واک آؤٹ کیا صوبائی وزیر داخلہ کا موقف تھا کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں امن وامان کے حوالے سے وزیراعظم نے اجلاس طلب کیا جس میں سیکرٹری ہوم اور آئی جی پولیس نے تو شرکت کی مگر مجھے نہ بلایا گیا اس سے میرا ،اس ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے انہوں نے کہا کہ توتک صورتحال پر بریفنگ بھی سیکرٹری ہوم یا آئی جی پولیس سے لی جائے اس موقع پر وزیرداخلہ ایوان سے واک آؤٹ کرگئے مسلم لیگ ن اور اپوزیشن ارکان نے بھی ان کے ساتھ واک آؤٹ کیا اس موقع پر اسپیکر نے کہا کہ چند ارکان واک آؤٹ کرنے والے ارکان اسمبلی کو منا کر واپس لائیں جس پر صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ وزیر داخلہ اپنے وزیراعظم کے رویئے کے خلاف واک آؤٹ کرگئے ہیں ہم انہیں کس طرح اور کس یقین دہانی کے ساتھ واپس لاسکتے ہیں کہ آئندہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوگا اس ایوان کو قواعد کے مطابق چلایاجائے اپوزیشن کو بار بار بولنے کاموقع دیاجاتا ہے اور اپوزیشن لیڈر یہاں پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کی باتیں کرتے ہیں کون نہیں جانتا کہ انہوں نے اپنے دور میں پانچ سال تک سردار یار محمد رند، اس کے بعد عبدالقادر گیلانی اور غلام جان کے فنڈز روکے رکھے دراصل مولاناعبدالواسع کو اپوزیشن نشستوں پر بیٹھنے کا افسوس ہے وہ حکومتی نشستوں پر بیٹھنا چاہتے تھے اور اب جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں ان کے دور میں ترقیاتی منصوبوں میں بدعنوانیاں ہوتی رہیں اور کورٹ نے بھی اس کی تحقیقات کا حکم دیا ہے مشیر خزانہ میر خالد خان لانگو نے کہا کہ مسلم لیگ ن مخلوط حکومت کاحصہ ہے اور اپوزیشن اس ایوان کاحصہ ہے انہیں منا کر واپس لاناچاہئے جس پر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ واک آؤٹ کرنے والے ارکان کو اسپیکر ہی منا کر لائیں اور اس کیلئے اجلاس تھوڑی دیگر کیلئے ملتوی کردیاجائے صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اپوزیشن دل کھول کر تنقید کریں مگر وہ حکومتی اتحاد میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے ہم کسی کو اس کی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے اسپیکر نے کہا کہ وہ اپوزیشن کو ایسا کرنے سے روکیں اور پوائنٹ آف آرڈر پر بولنے کا کوئی طریقہ کار ہوناچاہئے اس موقع پر اسپیکر نے اجلاس 15منٹ تک ملتوی کردیا وقفے کے بعد مسلم لیگ ن اور اپوزیشن ارکان بائیکاٹ ختم کرکے ایوان میں آئے اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اراکین کی درخواست پر ایوان میں آئے ہیں کل جو واقعہ ہوا ہے وہ نہ صرف میری بلکہ اس ایوان میں بیٹھے سب ارکان کی توہین ہے یہ پہلا واقعہ نہیں جب معزز ممبر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا تو مجھے صبح اطلاع دی گئی اس سے پہلے مسز کھیتران نے مجھے فون کیا اس کے علاوہ نواب ثناء اللہ خان زہری کے ساتھ جو واقعہ ہوا کیس کی واپسی سے متعلق سمری ارسال کی ہے اب تک اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ہمیں وزارت کا شوق نہیں پارلیمانی لیڈر نواب ثناء اللہ زہری کی کوئٹہ آمد کے بعد ان سے صاف صاف الفاظ میں بات کروں گا کہ ہمیں بااختیار بنایاجائے ورنہ ہم دوسری سائیڈ پر بیٹھنے سے گریز نہیں کریں گے اگر وزیراعلیٰ کا یہ رویہ برقرار رہا تو مخلوط حکومت چلتی ہوئی نظرنہیں آئے گی خالد لانگو نے اپوزیشن اور مسلم لیگ ن کے ارکان کی جانب سے بائیکاٹ ختم کرنے کے عمل کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اختلاف جمہوریت کاحسن ہے آج ہم حکومتی بینچوں پر تو کل اپوزیشن میں ہوں گے وزیراعلیٰ کل آرہے ہیں اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسائل حل کریں گے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ جمہوریت میں مسائل پر اختلافات ہوتے رہتے ہیں مگر ان اختلافات کو ذاتی اناء کا مسئلہ نہیں بناناچاہئے یہاں پر ہم عوام کے مسائل کے حل کیلئے بحث ومباحثے کرتے رہتے ہیں ہمارا کسی کے ساتھ کوئی ذاتیات نہیں سب ارکان محترم ہیں ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ وزیراعظم کی کوئٹہ آمد کے موقع پر تمام پارلیمانی لیڈروں کو بات کرنے کی دعوت دی گئی تھی اپوزیشن لیڈر مولاناعبدالواسع نے انہیں خوش آمدید کہا اور کہا کہ ہم خوش ہیں آپ تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں شاید آپ میں یہ اہلیت موجود ہے کہ آپ تیسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے ہیں اسی طرح پشتونخوامیپ ،نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈروں نے خوش دلی سے ان سے بات کی اور انہیں خوش آمدید کہا مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی کے معاملے کو وزیراعظم کے دورے سے منسلک کیا گیا وزیراعظم کے جاتے ہی انگلیاں اٹھانا شروع کردی گئی ہیں ہماری کچھ روایات ہیں بعض ارکان نے گورنر ہاؤس میں کھانے پینے کی چیزیں نہ ملنے کا گلہ کیا ہے یہ بات درست نہیں وہ کھانے کا وقت نہیں تھا طاہر محمود نے کہا کہ وزیراعظم کے دورے کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی اگر کسی نے کھانے پینے کی چیزوں کا گلہ کیا ہے تو صرف ایک ممبر ہے البتہ باقی معاملات ہمارے آپس کے ہیں جسے ہم مل بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں راحیلہ درانی نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے دورے سے متعلق کسی نے بات نہیں کی البتہ کچھ الفاظ اس طرح ہیں جو ایوان میں ان سے متعلق نہیں ادا کرنے چاہئے تھے جس پر اسپیکر جان محمد جمالی نے خالد لانگو کی جانب سے ادا کئے گئے بعض الفاظ کو اسمبلی سے ہذف کرا دیا ڈپٹی اسپیکر میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا کہ ہم نے احتجاج وزیراعظم کے خلاف نہیں بلکہ وزیراعلیٰ اور اپنی حکومت کے رویئے کے خلاف کیا وزیراعلیٰ کو معلوم ہوناچاہئے کہ وہ وزراء کی وجہ سے وزیراعلیٰ ہیں اگر ان کی عزت نہیں ہوگی تو پھر معاملات کیسے چلیں گے پارلیمانی لیڈر کے آنے کے بعد دوٹوک الفاظ میں بات کریں گے کہ ہمیں اختیارات دیئے جائیں اور ہمارے عزت کا خیال رکھاجائے بصورت دیگر ہم آزاد نشستوں پر بیٹھنے سے گریز نہیں کریں گے۔