طالبان کی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت ہو سکتی ہے ،پیغام بھیج دیا ہے ، ملنے کو تیار ہیں ،حکومتی کمیٹی ،آئندہ ایک سے دو روز میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات ہو جائے گی ، رحیم اللہ یوسف زئی،فضل اللہ کی خراہش ہے قیدی رہا کئے جائیں ، کوئی فیصلہ کر نا ہے تو جلدی کرناچاہیے ، مذاکرات سے تعطل سب کیلئے نقصان دہ ہوگا ، انٹریو

منگل 4 فروری 2014 21:45

طالبان کی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت ہو سکتی ہے ،پیغام بھیج ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔4 فروری ۔2014ء) حکومت کی جانب سے مذاکرات کیلئے بنائی گئی کمیٹی نے کہا ہے کہ طالبان کی تین رکنی مذاکراتی کمیٹی سے بات چیت ہو سکتی ہے اور انھیں پیغام بھیج دیا ہے کہ ہم ان سے ملنے کو تیار ہیں۔منگل کو حکومی کمیٹی کے طالبان کی نمائندہ کمیٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات ملتوی ہوگئے تھے چار رکنی حکومتی کمیٹی کے رکن اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے برطانوی میڈیا کوبتایا کہ کہا کہ توقع ہے کہ آئندہ ایک سے دو روز میں حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کی ملاقات ہو جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ ایک بڑی وضاحت ہو گئی ہے اور ممکن ہے کہ طالبان سے جو دیگر وضاحتیں طلب کر رہے ہیں وہ بھی دے دی جائیں گی۔طالبان قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یو سف زئی نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کی خواہش ہے کہ ان کے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ اگر کوئی فیصلہ کرنا ہے تو ہمیں جلدی کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے عوام کی مصیبتیں دور ہوں۔

اگر مذاکرات میں کوئی تعطل پیدا ہوتا ہے تو وہ سب کیلئے نقصان دہ ہوگا اور اگر پیش رفت نہیں ہو گی تو ظاہر ہے ایسی صورت میں مذاکرات لمبے عرصے تک نہیں چلیں گے۔اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومتی مذاکراتی کمیٹی طالبان سے مطالبہ کرے گی کہ وہ مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے ساتھ اپنی کارروائیاں روک دیں؟اس پر رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ یہ ہماری ترجیح ہو گی کہ طالبان اپنی کارروائیاں بند کریں۔

انہوں نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی سے وضاحت طلب کی کہ کیا وہ ہمیں اس طرح کی یقین دہانی دے سکتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان ان کے اتحادی اور ذیلی تنظیمیں حملے روک دیں گی؟جب مذاکرات ہوں گے اور اگر طالبان نے اپنی کارروائیاں روک دیں اور حکومت کی جانب سے جوابی کارروائی نہیں کی جائیگی تو پھر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے بارے میں طالبان کا موقف بھی سامنے آ جائیگا کہ کیا تحریک طالبان ان حملوں کی مذمت کرتی ہے کیا ان کو روکنے کی کوشش کرتی ہے یا کیا ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے؟