بلوچستان میں تعلیم عام کرنے کی ہر حکومت کی کوشش رہی ہے، غلام علی بلوچ،جب تک سکول ٹیچرز لیکچرار اور پروفیسر تعاون نہیں کرینگے اس وقت تک تعلیم کو عام کرنا مشکل ہوتا ہے ، سیکرٹری تعلیم بلوچستان

ہفتہ 15 فروری 2014 19:28

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔15 فروری ۔2014ء) سیکرٹری تعلیم بلوچستان غلام علی بلوچ نے کہا ہے کہ سکول ٹیچرز پروفیسرز کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انہیں کوئٹہ شہر کے قریب ترین سکولز کالجوں میں تعینات کیا جائیں اور زیادہ خواہش یہ ہوتی ہے کہ جناح روڈ کے ارد گرد کالج یا سکولوں میں تعینات کیا جائے اور اگر کسی ٹیچرپروفیسر یا لیکچرار کو ضلع واشک جانے کا کہاں جائیں تو وہ جانے سے گریز کرتے ہیں بلوچستان میں تعلیم عام کرنے کی ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے مگر جب تک سکول ٹیچرز لیکچرار اور پروفیسر تعاون نہیں کرینگے اس وقت تک تعلیم کو عام کرنا مشکل ہوتا ہے ہر حکومت کی اپنی پالیسی ہوتی ہے موجودہ حکومت کی تعلیم کے بارے میں بالکل واضح پالیسی ہے کہ ہر بچہ تعلیم حاصل کریں مگر افسوس دوسری جانب سے کوئی زیادہ حوصلہ افزاء بات سامنے نہیں آتی جس کی وجہ سے تعلیم عام کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہے انہوں نے یہ بات ہفتے کے روز عزیز کاری تنظیم عصر کے زیر اہتمام بوائز سکاؤٹ میں ہونیوالے ایک سیمینار سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی انہوں نے کہاکہ اس وقت ڈگریاں بہت سے طالبعلموں نے حاصل کی ہوئی مگر انہیں یہ پیشکش کی جائے کہ وہ کوئٹہ سے باہر جاکرملازمت کریں تو وہ نہیں جاتے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار بھی نہیں ملتا حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار دیا جائے مگر وہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتے اگر توجہ دیں تو بہت سا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اس سے قبل سابقہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم بلوچستان کیلئے بے حد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تعلیم عام ہوگی تو سب سے زیادہ توجہ دی جاسکیں گی میڈیا ایڈوائزر قیصر بنگالی نے کہا کہ ہم حکومت کو تعلیم کے بارے میں ایڈوائز دے سکتے ہیں باقی اس پر عمل درآمد کرنا یا نہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے باقی اس پر عملدرآمد کرنا یا نہ کرنا حکومت کاکام ہے کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین ملک رشید خان کاکڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم پر توجہ دیں کیونکہ تعلیم کے بغیر صوبے کی پسماندگی کا دور نہیں کیا جاسکتا اور جب تک پسماندگی کا دور نہیں کیا جائیگا اس وقت تک صوبہ ترقی نہیں کرسکے گا انہوں نے اس موقع پر مختلف تجاویز بھی پیش کی اور اس توقع کااظہار کیا کہ زیادہ سے زیادہ حکومت تجاویز پر عملدرآمد کریگی سیمینار سے مختلف افراد اور این جی اوز اور باہر سے آئے ہوئے مختلف شخصیات نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ تنظیم عصر کے زیر اہتمام 2013میں کئے گئے سروے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سکولوں میں تعلیم کی طلباء اردو بھی صحیح نہیں لکھ سکتے اور ریاضی کی جمع تفریق سے تو وہ واقف بھی نہیں ہے یہ سروسے ساؤتھ ایشیاء فور م برائے تعلیمی ترقی اور ادارہ تعلیم وآگاہی سے پاکستان کے ایک سو اڑتیس اضلاع میں کیا گیا اس سروے میں بلوچستان کے 839دیہی علاقوں میں 53412بچوں میں 38930بچے جن کی عمریں تین سے 16سال تھے ان کا اردو زبان اور دیگر تعلیمی مضامین کے حوالے سے ٹیسٹ لیا گیا اس کے علاوہ صوبے کے 724سرکاری اور 59پرائیوٹ سکولوں میں بھی بچوں کے ٹیسٹ لئے گئے سروسے سے پتہ چلا کہ بلوچستان میں 34فیصد بچے سکول نہیں جاتے 26فیصد بچوں کو کبھی سکول میں داخلہ نہیں دلایا گیا اور 8فیصد مختلف وجوہات کی بناء پر سکول جانا چھوڑ گئے جبکہ 81فیصد بچے جن کی عمریں تین سے پانچ سال تھی انہیں کبھی بھی سکول میں داخلہ نہیں دلوایا گیا سروسے سے معلوم ہوا ہے کہ کلااس ون کے 38فیصد بچے اردو سے حروف نہیں پڑھ سکتے سروسے میں انکشاف ہوا ہے کہ سرکاری سکولوں میں 14فیصد سے زائد اساتذہ مستقل طور پر سکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں جبکہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہیں وصول کرتے ہیں سرکاری سکولوں میں صرف34فیصد اساتذہ گریجویٹ ہیں 71فیصد سرکاری پرائمری سکول سے پینے کا پانی تک نہیں 75فیصد سکولوں کی چاردیواری نہیں اور 83فیصد سکولوں میں لیٹرین تک نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :