پولیس اہلکاروں کوٹریننگ دی ہے اب ہماری کوشش ہے کہ لیویز اور بی سی کے اہلکاروں کو بھی ٹریننگ دیں ، ڈاکٹر عبد المالک بلوچ،لیویز فورس کو ری آرگنائز کرنے کی ضرورت ہے ،جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ تربیت یقینی بنائی جائیگی، وزیراعلیٰ بلوچستان ،پینتیس سالوں سے گیس نکل رہی ہے ، صوبے کا وسیع تر علاقہ سہولیات سے تال حال محروم ہے ،جس علاقے سے جو معدنیات دریافت ہوں ان پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے ، آئین کے تحت تسلیم شدہ حقوق کیلئے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ، مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ضرورت کے مطابق پائپ لائن بچھائی جائے،رضا بڑیچ ،مفتی گلاب ،ڈاکٹر شمع اسحاق، میرخالد خان لانگو، یاسمین لہڑی اور دیگر کا صوبائی اسمبلی میں خطاب

جمعرات 20 مارچ 2014 22:36

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2014ء) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے جمعرات کے روز صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں پوائنٹ آف آرڈر پر تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا میرے حلقے انتخاب تربت میں لیویز اہلکاروں نے لڑنے کی بجائے سرکاری ہتھیار بھی دے دیئے ہم اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں ہم نے پولیس اہلکاروں کوٹریننگ دی ہے اب ہماری کوشش ہے کہ لیویز اور بی سی کے اہلکاروں کو بھی ٹریننگ دیں لورالائی سے ایک بیج ٹریننگ کے بعد فارغ ہوچکا ہے 15دن میں دوسری ٹریننگ شروع کررہے ہیں یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم نے اپنی لیویز کو اس کے مطابق ٹریننگ کرنی ہے لیویز فورس کو ری آرگنائز کرنے کی ضرورت ہے موجودہ لیویز صوبے میں امن قائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ لیویز نہ تو انگریز کے دور کی ہے اور نہ ہی ہمارے پرانے دور کی ہے یہ بدل چکی ہے ایک ڈسٹرکٹ میں لیویز کے140اہلکار ہیں مگر وہاں صرف تین ،چار اہلکار ڈیوٹی پر آتے ہیں انہوں نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لیویز کو جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ان کی تربیت کو بھی یقینی بنایاجائے گابلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ کے نواحی علاقے اغبرگ کو گیس کی فراہمی ،صوبے میں تمام پرائیویٹ،کمپنیوں ،بینکوں اور صنعتی اداروں میں 70فیصد مقامی افراد کو ملازمتیں دینے، لیویز فورس کیلئے ترقی کے کوٹے میں اضافہ اور کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ میں تقرریوں سے متعلق قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں جبکہ سی ایس ایس کیلئے عمر کی بالائی حد میں اضافے سے متعلق قرارداد اضافے کے ساتھ آئندہ اجلاس میں بحث کیلئے منظور کرلی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو ہوا اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن صوبائی اسمبلی مفتی گلاب خان کاکڑ نے اغبرگ کو گیس کی فراہمی سے متعلق قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اغبرگ جو 19کلیوں پر مشتمل ضلع کوئٹہ کا ہے لیکن اس دور جدید میں بھی گیس جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہے جس کی وجہ سے وہاں کے عوام احساس محرومی کا شکار ہیں لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ اغبرگ یونین کونسل کو فوری طور پر گیس کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں جو کہ وہاں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بھی ہے قرار داد پر اظہارخیال کرتے ہوئے محرک مفتی گلاب ،ڈاکٹر شمع اسحاق، میرخالد خان لانگو، یاسمین لہڑی اور دیگر نے کہا کہ گیس بلوچستان سے گزشتہ35سال سے نکل رہی ہے مگر صوبے کا وسیع تر علاقہ اس سہولت سے محروم ہے اٹھارویں ترمیم میں یہ بات طے ہے کہ جو وسائل جہاں سے دریافت ہوں ان پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے مگر بلوچستان کے شدید سرد علاقے بھی اس سہولت سے محروم ہیں مقررین نے کہا کہ صرف اغبرگ ہی نہیں بلکہ صوبے کے تمام علاقوں کو گیس کی فراہمی کویقینی بنایاجائے صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز احمدبگٹی نے کہا کہ یہاں ارکان صوبے میں گیس کی عدم فراہمی کو رو رہے ہیں جبکہ جہاں سے گیس نکلی ہے وہاں کے عوام اس سہولت سے محروم ہیں صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ یہ بات اٹھارویں ترمیم میں ہی نہیں بلکہ 1973ء کے آئین میں بھی شامل ہے کہ جس علاقے سے جو معدنیات دریافت ہوں ان پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے صوبائی وزیر اطلاعات، قانون وپارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اغبرگ کوئٹہ کا ہی علاقہ ہے مگر وہاں پر گیس نہیں ہے آئین میں اس حوالے سے مختلف آرٹیکلز ہیں کہ جہاں سے جو معدنیات دریافت ہوں اس پر پہلا حق وہاں کے عوام کا ہے مگر کسی کو معلوم نہیں کہ ہمارے صوبے سے کتنی گیس نکل رہی ہے اور نہ ہی ماضی میں کسی حکومت یا وزیراعلیٰ نے یہ جاننے کی کوشش کی اب ہرنائی کے علاقے زرغون غر میں گیس دریافت ہوئی ہے اور اس گیس کو کوئٹہ لانے کا پروگرام بنایا گیا ہے مگر اس سلسلے میں وہاں کے عوام سے جس طرح کا رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ افسوسناک ہے وزیراعظم کو بھی صورتحال سے آگاہ کردیا ہے 1954ء میں ڈیرہ بگٹی سے گیس نکلی اس کی آمدن سے متعلقہ ادارے نے جو جائیدادیں بنائی ہیں اس میں ہمارا حصہ تسلیم نہیں کیاجارہا کوئٹہ کو اس وقت150ایم ایم سی یو ایف گیس فراہم کی جارہی ہے جبکہ ضرورت 180ایم ایم سی یو ایف ہے صوبے کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا ہمارے پاس دنیا کے جونیپر کے دوسرے بڑے جنگلات ہیں جن کو عالمی ورثہ قرار دیاجاچکا ہے مگر زیارت بازار کے علاوہ کہیں گیس نہیں جس کی وجہ سے صنوبر کے درختوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ہمیں جنگلات کا تحفظ کرنا ہے اس طرح ہی قلات اور ہربوئی میں بھی قیمتی جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے کوئٹہ کے علاوہ جہاں جہاں گیس ہے وہاں پریشر نہ ہونے کے برابر ہے دوسری جانب گیس نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے جنگلات کاٹ دیئے ہیں جن کی وجہ سے بارشوں میں تباہی مچتی ہے ہمیں اپنے جنگلات اور ماحولیات کو تباہی سے بچانا ہے انہوں نے کہا کہ ہم آئین کے تحت تسلیم شدہ حقوق کیلئے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ہے انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو بتایاجائے کہ بلوچستان سے کس مقدار میں گیس پیدا ہوتی ہے اور بلوچستان کو کتنی فراہم کی جاتی ہے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب میں قومی اسمبلی کا رکن تھا تو اس وقت زیارت میں مفت چولہے تقسیم کرنے کامنصوبہ بنایا گیا جس پر میں نے کہا کہ ہمارے لوگ بھکاری نہیں چولہے دینے کی بجائے اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کیاجائے ہمارے مطالبہ پر زیارت کو گیس فراہم کی گئی جبکہ پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ہمارے عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں اور ہمیں مجبور نہ کیاجائے کہ ہم امداد دینے والے ممالک سے یہ کہیں کہ وہ پاکستان کی امداد روک دیں انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہمارے بارے میں مختلف باتیں کی جاتی تھیں مگر عدلیہ نے فیصلہ دے دیا ہے اور اس میں واضح کردیا ہے کہ کون ملک کا غدار ہے اور کون وفادار ہے ہم کہتے ہیں کہ ہمارے عوام کو بھی اس ملک کا شہری سمجھاجائے اور آئین کے تحت ان کو ان کے حقوق دیئے جائیں صوبائی مشیر تعلیم رضا بڑیچ نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت گیس کی جو لائنیں ہیں وہ یا تو پرانی ہیں یا پھر ان میں زیادہ پریشر برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں ہے مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ ضرورت کے مطابق پائپ لائن بچھائی جائے اور جہاں پر پائپ لائنیں بوسیدہ ہیں وہاں نئی لائنیں بچھائی جائیں بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلیں اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی سردار محمد صالح بھوتانی نے طاہر محمود خان  رایلہ حمید خان درانی اور نیشنل پارٹی کے فتح محمد بلیدی اور ڈاکٹر شمع اسحاق کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ صوبے میں تمام پرائیویٹ کمپنیوں  بینکوں اور موبائل کمپنیوں کو این او سی جاری کرتے وقت مقررہ 70 کوٹہ پر عمل کرانے کی سختی سے پر عملدرآمد یقینی بنائے نیز حب شہر جو صنعتی لحاظ سے ایک تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اور وہاں پر مذکورہ کمپنیاں مقامی نوجوانوں کو مقرر کردہ کوٹہ پر ملازمتیں دیں تاکہ ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روز گار کے مواقع ہوسکیں۔

(جاری ہے)

قرار داد پر اظہارخیال کرتے ہوئے سردار صالح محمد بھوتانی نے کہا کہ صوبے میں کوئی بھی صنعت لگانے سے قبل این او سی جاری کرتے وقت یہ شرط رکھی جاتی ہے کہ وہاں پر 70فیصد مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں گی مقامی لوگوں کے مراد پہلے اس ضلع پھر ڈویژن اور پھر صوبے کے نوجوانوں کو ملازمتیں دی جائیں گی مگر اس وقت صوبے میں اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا مختلف کمپنیاں یہ بھی بتانے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ ان کے پاس مقامی ملازمین کی تعداد کتنی ہے جب ہم مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کی باتیں کرتے ہیں تو فیکٹریوں کے مالکان یہ کہتے ہیں کہ عوامی نمائندے انہیں تنگ کررہے ہیں اور وہ فیکٹریاں بندکرنے پرمجبور ہوں گے ہم جانتے ہیں کہ یہ گیدڑبھبھکیاں ہیں لیکن پھر بھی ہم اس لئے خاموش ہوجاتے ہیں کہ ہمیں اپنے عوام کا روزگار ،صوبے کی ترقی اور خوشحالی عزیز ہے انہوں نے کہا کہ ضلع لسبیلہ میں جو صنعتی ادارے ہیں اور خاص طور پر بڑے ادارے عوامی نمائندوں سے ملنے تک تیار نہیں ہم نہ کسی سے خیرات مانگتے ہیں اور نہ کبھی کسی سے بھتہ مانگا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ مقامی لوگوں کوملازمتیں دی جائیں سید لیاقت آغا نے کہا کہ ہمارے صوبے میں نہ تو این او سی کے حوالے سے کوئی عملدرآمد کیاجاتا ہے اور نہ ہی صنعتوں میں لیبر لاز کاخیال رکھاجاتا ہے حالانکہ جب بھی این او سی جاری ہوتا ہے اس میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ 70فیصد مقامی لوگوں کوملازمتیں دی جائیں گی مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ ایک کمپنی جسے یہاں پر این او سی دیا گیا وہ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے دعوے کرتی تھی مگر اس نے بیرونی سرمایہ کاری لانے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ ملازمین کو جو ملازمت کے لیٹر جاری کئے گئے اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ انہیں کسی وقت بھی کوئی وجہ بتائے بغیر ملازمت سے نکالاجاسکتا ہے جو مکمل طور پر قوانین کی خلاف ورزی ہے ہمیں اس مسئلے کوسنجیدگی سے لینا ہوگا ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ جہاں بے روزگاری ہوتی ہے وہاں غربت ہوتی ہے اور غربت سے احساس محرومی جنم لیتا ہے صنعتوں میں 70فیصد مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے پر عملدرآمد کیاجائے رکن اسمبلی پرنس احمد علی نے کہا کہ ہمارے آباؤاجداد نے عوام کی ترقی، خوشحالی کیلئے لیڈا کے قیام کیلئے زمین دی مگر وہاں پر مقامی لوگوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خود آکر وہاں کے صنعت کاروں سے پوچھا کہ کتنے لوگوں کوملازمتیں دی گئی ہیں جس پر بتایا گیا کہ بلوچستان کے لوگ اسکلڈ نہیں ہم مانتے ہیں کہ اسکل کے حوالے سے ہمارے لوگ کافی پیچھے ہیں مگر نان ٹیکنیکل کاموں کیلئے تو مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں صوبائی مشیر عبیداللہ بابت نے کہا کہ ماضی میں ہمارے پاس ہرنائی اور بلیلی میں ملز تھیں مگر وہ بند ہوگئیں اور بلوچستان کے بارے میں یہ تاثر دیاجاتا ہے کہ یہاں کے لوگ اہل نہیں جبکہ ہمارے لوگوں کو صوبے سے باہر ملازمت بھی نہیں ملتی انہوں نے قرار داد کی حمایت کی سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ لیڈا سمیت دوسرے زونز میں صنعتوں کے قیام کیلئے این او سی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ 70فیصد مقامی لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں گی اس پر عملدرآمد کویقینی بنایاجائے اگر صرف صنعتوں میں ہمارے70فیصدلوگوں کوملازمتیں مل جائیں تو بلوچستان سے بے روزگاری ختم ہوسکتی ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ کابینہ میں اس مسئلے پر بحث کرکے ایک کمیٹی بنائی جائے تاکہ پوری صورتحال سامنے آجائے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ صرف قراردادیں پاس کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے اس کام کیلئے ایک میکنزم کی ضرورت ہے کمپنیوں اور اس میں کام کرنے والے افراد کی تفصیلات معلوم کی جائے انہوں نے کہا کہ اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز اپنے اپنے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کو اٹھائیں ۔

صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ جن کمپنیوں کو این او سی جاری ہوئے ہیں وہ واقعی رولز پر عملدرآمد نہیں کررہے ڈرلنگ ہو یاسوئی سدرن گیس کمپنی صوبائی حکومت کسی شخص کی بات ماننے کو تیار نہیں اور نہ ہی صوبائی حکومت کے احکامات پر عملدرآمد کرتے ہیں سوئی سدرن سمیت تمام کمپنیوں کو بلا کر پوچھا جائے اور انہیں پابند بنایاجائے کہ وہ آئین کے تحت مقامی افراد کو روزگار فراہم کریں جو کمپنیاں بات نہیں مانیں گی ان کو بند کیاجائے اس موقع پر ایوان نے قرار داد کی منظوری دے دی۔

جمعیت علماء سلام کی رکن صوبائی اسمبلی حسن بانو نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ بلوچستان کی مخدوش صورتحال معاشی اور تعلیمی پسمندگی کی وجہ سے نوجوانوں کی اکثریت سی ایس ایس کے امتحان میں شمولیت کیلئے عمر کی موجودہ بالائی حد 28 سال مقرر ہے پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے وہ اعلیٰ سول سروس مقابلے کے امتحانات میں شمولیت سے محروم رہتے ہیں لہٰذا صوبہ بلوچستان کی پسماندگی اور مخصوص با ساز گار حالات کے پیش نظر صوبہ کے نوجوانوں کی اعلیٰ سول سروس میں شمولیت کیلئے عمر کی بالائی حد 28 سال سے بڑھا کر 35 سال مقرر کی ائے تاکہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوانوں کو اپنے صوبے کوٹہ کے مطابق ملازمتیں مل سکیں اور ان میں پھیلی ہوئی بے چینی اور احساس محرومی وک دور کرنے کا ازالہ ہوسکے سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ بلوچستان کے اکثر علاقے پسماندگی کاشکار ہیں بچے بڑی عمر میں سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں اسی لئے جب سی ایس ایس کے امتحان کا وقت آتا ہے تو ان کی عمر زیادہ ہوتی ہے اسی لئے سی ایس ایس امتحان کیلئے بلوچستان کے نوجوانوں کو عمر کی حد زیادہ سے زیادہ دی جائے اسلام آباد میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے جعلی لوکل بنا کر اسلام آباد اور لاہور کے لوگ بلوچستان کے کوٹے پر بھرتی ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ازالے کیلئے میری تجویز ہے کہ سی ایس ایس کا ایک خصوصی امتحان کاانعقاد کرکے بلوچستان کے نوجوانوں کو موقع دیاجائے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ صرف سی ایس ایس نہیں تمام مکمہ جات میں روزگار کیلئے عمر کی حد35سال تک بڑھائی جائے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں چونکہ اکثریت پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیورو کریسی کے لوگ بیٹھے ہیں اس لئے وہ اپنے حالات کے مطابق پالیسیاں بناتے ہیں وفاق پنجاب اور بیورو کریسی ایک ہی ادارے کا نام ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں متعدد تعلیمی نظام رائج ہیں جہاں پیسے کا عمل دخل بہت زیادہ ہے غریب لوگ بڑی بڑی رقم ادا کرکے تعلیم سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتے مشیر تعلیم رضا محمدبڑیچ نے کہا کہ سی ایس ایس کے امتحان کیلئے بلوچستان کے نوجوانوں کی عمر کی حد30سال تک ہے لیکن ہمیں عمر پر زور دینے کی بجائے زیادہ سے زیادہ بچوں کو روزگار فراہم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالناچاہئے ہمارے بچے ٹیلنٹڈ ہیں سی ایس ایس کے امتحان میں بڑی تعداد میں وہ کامیاب ہوتے ہیں لیکن کوٹے کی کمی کے باعث سب کو روزگار مہیانہیں ہوتا لہذا وفاق سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے والے تمام نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ قرار داد میں ابہام ہے 35سال تک اپلائی کرنے والے امیدوار نوجوان نہیں رہتے امتحان دینے کیلئے 22سے 28تک کی عمر کافی ہوتی ہے انہوں نے تجویز پیش کی کہ قرار داد میں سی ایس ایس کے امتحان کیلئے35سال عمر نہیں بلکہ روزگار کی فراہمی کیلئے35سال عمر کی حد لاگو کی جائے مجیب الرحمن محمد حسنی نے کہا کہ35سال والے امیدوار جوانی کی عمر سے آگے نکل جاتے ہیں جتنے بھی امیدوار پاس ہتے ہیں انہیں روزگار فراہم کیاجائے ثمینہ خان نے کہا کہ عمر کی حد 35سال سے بھی بڑھا کر45کی جائے عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ سی ایس ایس کے امتحان کیلئے عمر کی حد تیس سال ہے وزیراعلیٰ مزید پانچ سال تک رعایت دینے کااختیار رکھتے ہیں انہوں نے کہا کہ وفاق اب 5.3کی بجائے 9.5کوٹہ کے حساب سے ملازمتوں میں حصہ دے رہے ہیں 65سال سے بلوچستان کے کوٹے پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے 999کارپوریشنز میں بلوچستان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے علاوہ 16گریڈ کے نیچے ملازمتوں پر بلوچستان سے نوجوانوں کو یکسر نظراندازکیاجاتا رہا ہے بدبختی تو یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جو محکمے صوبوں کے حوالے کئے جارہے ہیں ان کے ملازمین کا کھاتہ بھی ہمارے گلے ڈالاجارہا ہے رقیہ ہاشمی نے کہا کہ بلوچستان میں پسماندگی اورمخصوص حالات کے پیش نظر بہت سے بچے تعلیم حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں اس لئے عمر کی حد میں زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائے ڈاکٹر شمع اسحاق نے کہا کہ سی ایس ایس اور میڈیکل ٹیسٹ میں عمر کی حد23سال ہے جبکہ روزگار کیلئے28سال ہے سی ایس ایس میں شرکت کرنے والے نوجوانوں کو عمر کم از کم گریجویٹ ہونا ضروری ہے گریجویشن کرتے وقت نوجوانوں کی عمر 23سے24سال تک ہوتی ہے 28سال تک عمر کے نوجوان امتحانات میں مقابلہ کرسکتے ہیں 35سے40سال والا امیدوار اتنا مقابلہ نہیں کرسکتا اس موقع پر متعددتجاویز آنے پر اسپیکر نے قرار داد پر کارروائی ملتوی کرتے ہوئے اسمبلی سیکرٹریٹ کو ہدایت کی کہ قرار داد کو نئے سرے سے مرتب کرکے اگلے اجلاس میں پیش کیاجائے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی رکن صوبائی اسمبلی آغا سید لیاقت علی نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہاکہ سال 2007ء میں صوبائی لیویز فورس کو پولیس میں ضم کردیا گیا اس دوران لیویز فورس کے تعلیم یافتہ ملازمین نے اے ون اور بی ون کے امتحانات پاس کرکے موثر کورس کیلئے منتخب بھی ہوئے اور ساتھ ہی ان تعلیم یافتہ ملازمین نے حوالداری اور اے ایس آئی کے کورسز کئے لیکن سال 2010ء میں لیویز فورس کو پولیس سے الگ کیا گیا جس کی وجہ سے لیویز فورس کے تعلیم یافتہ ملازمین دوبارہ اپنے تعینات کردہ عہدوں پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لیویز فورس کے ملازمین کا کوٹہ 20 فیصد اور پولیس کے مالزمین کا 60 فیصد مختص ہے جس کی وجہ سے لیویز فورس کے ملازمین میں مایوسی اور بے چینی پائی جاتی ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ لیویز فورس کے ملازمین کا پروموشن کوٹہ 20 فیصد پولیس فورس کے 60 کوٹہ کے برابر کیا جائے تاکہ لیویز فورس کے تعلیم اور تربیت یافتہ ملازمین کو ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہوسکیں انہوں نے کہا کہ امن وامان کے قیام کیلئے لیویز اہم ادارہ ہے اور صوبے کے وسیع علاقے میں امن کے قیام کیلئے ہمیں اس فورس پر انحصار کرناپڑتا ہے مگر بدقسمتی سے اس فورس کو تمام سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے جرائم پر قابو پانے کیلئے لیویز فورس کے اہلکاروں کی ترقی کیلئے کوٹے میں اضافہ جدید اسلحہ گاڑیاں اور دیگر سہولیات کی فراہمی کویقینی بنایاجائے رکن اسمبلی میرعاصم کر دگیلو نے کہا کہ صوبے میں امن وامان کا مسئلہ اہم ہے بلوچستان میں 95فیصد علاقے میں امن وامان کے قیام کی ذمہ داری لیویز کے پاس ہے جبکہ صرف پانچ فیصد علاقہ پولیس کے پاس ہے پولیس کی نفری 38ہزار جبکہ لیویز کی نفری بمشکل20ہزار کے قریب ہوگی اس کے باوجود لیویز کے علاقے میں جرائم انتہائی کم ہے انہوں نے زور دیا کہ پولیس کی طرح لیویز کو جدید اسلحہ، گاڑیاں فراہم اور تربیت دی جائے اپوزیشن لیڈر مولاناعبدالواسع نے کہا کہ مشرف دور میں جب لیویز کو پولیس میں ضم کیاجارہا تھا تو ہم نے اس کی مخالفت کی تھی اور گزشتہ حکومت میں ہم نے لیویز کو پولیس سے الگ کردیا تھا صوبائی حکومت صوبے کے مخصوص حالات کومدنظررکھتے ہوئے لیویز کی ترقی کیلئے کوٹہ میں اضافہ کرے اور اسے بنیادی سہولیات فراہم کرے پشتونخوامیپ کے نصراللہ زیرے، نیشنل پارٹی کے ہینڈری مسیح ،پشتونخوامیپ کے ڈاکٹرحامد خان اچکزئی، مسلم لیگ ن کے پرنس احمد علی، نیشنل پارٹی کے مجیب الرحمن محمد حسنی ، سردار عبدالرحمن کھیتران نے بھی قرار داد کی حمایت کی سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ ہم نے لیویز کی بہتری کے حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا ہے لیویز کو مکمل اختیارات دینے کامنصوبہ ہے لیویز کو اے ٹی ایف کی طرز پر ٹریننگ دینے اور اس کیلئے الگ ڈائریکٹوریٹ قائم اور آئی جی مقرر کرنے کا بھی منصوبہ ہے اسی طرح لیویز کیلئے ٹریننگ سینٹر قائم اور دیگرسہولیات فراہم کی جائیں گی صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ صوبائی کابینہ کا فیصلہ ہے کہ لیویز کیلئے الگ ڈائریکٹوریٹ قائم کیاجائے اس کی سمری وزیراعلیٰ کے پاس ہے ایک سینٹر خضدار میں موجود ہے جبکہ کوئٹہ میں سینٹر بنانے کاپروگرام ہے لیویز کا پرانا طریقہ کار بحال ،انٹیلی جنس نظام کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ لیویز نہ تو انگریز کے دور کی ہے اور نہ ہی ہمارے پرانے دور کی ہے یہ بدل چکی ہے ایک ڈسٹرکٹ میں لیویز کے140اہلکار ہیں مگر وہاں صرف تین ،چار اہلکار ڈیوٹی پر آتے ہیں میرے حلقے تربت میں لیویز اہلکاروں نے لڑنے کی بجائے سرکاری ہتھیار بھی دے دیئے ہم اس سلسلے میں بھی کام کررہے ہیں ہم نے پولیس اہلکاروں کوٹریننگ دی ہے اب ہماری کوشش ہے کہ لیویز اور بی سی کے اہلکاروں کو بھی ٹریننگ دیں لورالائی سے ایک بیج ٹریننگ کے بعد فارغ ہوچکا ہے 15دن میں دوسری ٹریننگ شروع کررہے ہیں یہ اکیسویں صدی ہے اور ہم نے اپنی لیویز کی اس سے مطابق ٹریننگ کرنی ہے لیویز فورس کو ری آرگنائز کرنے کی ضرورت ہے موجودہ لیویز صوبے میں امن قائم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی انہوں نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ لیویز کو جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ان کی تربیت کو بھی یقینی بنایاجائے گابلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ کے نواحی علاقے اغبرگ کو گیس کی فراہمی ،صوبے میں تمام پرائیویٹ،کمپنیوں ،بینکوں اور صنعتی اداروں میں 70فیصد مقامی افراد کو ملازمتیں دینے، لیویز فورس کیلئے ترقی کے کوٹے میں اضافہ اور کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ میں تقرریوں سے متعلق قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلیں جبکہ سی ایس ایس کیلئے عمر کی بالائی حد میں اضافے سے متعلق قرارداد اضافے کے ساتھ آئندہ اجلاس میں بحث کیلئے منظور کرلی ایوان نے یہ قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی۔

جمعیت علماء اسلام کے رہنماء اور صوبائی اسمبلی اپوزیشن لیڈر مولنا عبدالواسع نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیڈٹ کالج سیف اللہ جس اراضی پر تعبیر کیا گیا ہے وہ خدائیدازئی قبیلے کی ملکیت ہے اور یہ اراضی حکومتی نمائندہ ڈی سی او (ضلعی رابطہ آفیسر) اور خدائیدادزئی قبیلے کے معتبرین کے درمیان باقادعہ ایک معاہدے کے تحت 2004ء میں درج ذیل شرائط کے تحت بلا معاوضہ فراہم کیا گیا تھا -1 یہ کیڈٹ کالج کی تعمیر کیلئے 520 ایکڑ اراضی بلا معاوضہ فراہم کی جائیگی -2 درجہ چہارم کے تمام ملازمتوں پر صرف اور صرف خدائیدادزئی قبیلے کے افراد بھرتی کئے جائینگے -3 درجہ چہارم کی ملازمتوں کے علاوہ دیگر ملازمتوں پر اگر خدائیدادزئی کے لوگ شرائط پر پورے اتر سکتے ہوں ت انہیں ان ملازمتوں میں بھی دیا جائیگا لیکن موجودہ پرنسپل نے معاہدہ اور رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کو بعض ایسی آسامیوں پر تعینات کیا جو 2010ء میں مشتہر کی گئی تھیں ان آسامیوں پر بغیر کسی ٹیسٹ و انٹرویو کے اقرباء پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے من پسند افراد کی تعیناتیاں عمل میں لائی گئی ہیں ان آسامیوں کی تفصیل درج ذیل ہے -1 ڈرل انسٹرکٹر -2 سیکورٹی اسسٹنٹ -3 جونیئر کلرک -4 لیبارٹری اسسٹنٹ -5 ڈسپنسر جبکہ درج ذیل آسامیوں کو مشٹہر کئے بغیر تعیناتیاں عمل میں لائی گئی ہیں -1 پی اے ٹو پرنسپل -2 میسن (مستری) -3 ڈرائیور اور حال ہم میں مذکورہ پرنسپل نے انتقامی کارروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ملازمین کو ترقی دینے اور ان کا تبادلہ کرنے کیلئے غیر قانونی حربے استعمال کئے جن میں جبار خنا میسنگ آٰیسر کو سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر ٹرانسفر کیا گیا ہے اور تاج اکبر انسٹرکٹر (B-9) کو میسنگ آفیسر(B-16) تعینات کیا گیا ہے جبکہ راج گل سیکورٹی اسسٹنٹ (B-7) کو ڈرل انسٹرکٹر مقرر کیا گیا ہے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ موجودہ پرنسپل کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ جن کا کنٹریکٹ پیریڈ جو 6 مارچ 2014ء کو ختم ہچوکا ہے کو فوری طور پر برطرف کیا جائے اور ساتھ ہی مذکورہ غیر قانونی تقرریاں  ترقیوں اور تبادلوں کو کالعدم قرار دیکر ان کیخلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے صوبائی وزیر قانون وپارلیمانی امور عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اسی حوالے سے ہماری پارٹی کی خاتون رکن نے اپنی تحریک استحقاق بھی جمع کروائی ہے اور درخواست جمع کروائی ہے انہوں نے کہا کہ کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ کے پرنسپل نے خاتون رکن کو ان کے لیٹر کے جواب میں جو نوٹس جاری کیا ہے وہ نہ صرف قابل توہین ہے بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے انہوں نے کہا کہ کالج میں ملازمتوں میں تقرریوں اور فنڈز کے حوالے سے بھی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں انہوں نے کہا کہ اس قرار داد سے قبل یہاں پر خاتون رکن کی تحریک استحقاق کو لاناچاہئے تھا اسپیکر نے کہا کہ ان کی تحریک استحقاق کمیٹی کو غور کیلئے بھیج دی گئی تھی وزیراعلیٰ نے کہا کہ تحریک استحقاق قانون کے تحت کسی کمیٹی کے سپردنہیں کی جاسکتی بلکہ تحریک استحقاق پر ایوان میں بحث ہوتی ہے اور اس کے بارے میں فیصلہ بھی یہ ایوان ہی کرتا ہے اسمبلی سیکرٹریٹ کو اس معاملے کو دیکھناچاہئے انہوں نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں بعض ارکان کے سوالات کے جوابات نہ آنے پر جب میں نے معلومات کیں تو سرکاری حکام نے بتایا کہ جوابات اسمبلی سیکرٹریٹ کو بھیجے گئے تھے چیزوں کو ٹھیک کیا جائے نواب ثناء اللہ خان نے بھی ان کی تائید کی عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ کیڈٹ کالج قلعہ سیف اللہ کے پرنسپل کاخط دھمکی آمیز ہے اس کا سختی سے نوٹس لیا جانا چاہئے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مشیر تعلیم کو ہدایت کریں گے کہ کالج کے پرنسپل جو کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہیں ان کے حوالے سے تحقیقات کرکے سمری انہیں بھیجی جائے جس پر قانون کے مطابق عملدرآمد کیاجائے گا نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے مثبت یقین دہانی کرادی ہے انکوائری کے بعد کارروائی کی جائے گی اس موقع پر ایوان نے قرار داد منظور کرلی اجلاس میں عاصم کرد گیلو نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 5مارچ2014ء کو کرد قبائلی رہنماء حاجی عبدالرحیم کرد اپنے بیٹوں اور ایک ساتھی کے ہمراہ ڈھاڈر آرہے تھے کہ موٹرسائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں وہ اپنے دو بیٹوں سمیت جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کا ساتھی بھی بعد میں جاں بحق ہوگیا اس سے قبل مشکاف میں بھی فائرنگ کے نتیجے میں ایک 60سالہ شخص جس کا تعلق کرد قبیلے سے تھا جاں بحق ہوگیا لہذا اسمبلی کی کارروائی روک کر اس اہم نوعیت کے معاملے پر بحث کی جائے ڈپٹی اسپیکر نے تحریک التواء پر22مارچ کے اجلاس میں بحث کی رولنگ دی جس کے بعد اسمبلی کا اجلاس 22مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔