عدالتوں کے فیصلوں سے عوام کو انصاف ملتا ہے، انصاف کے عمل کو سپورٹ کرنے میں میڈیا کا کلیدی کردار ہے‘ جسٹس عمر عطاء بندیال ، پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، عدالتی رپورٹنگ کو مزید موٴثر بنانے کیلئے تربیتی کورسز کا اجراء کیا جائے‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ہفتہ 12 اپریل 2014 22:04

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12اپریل۔2014ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطا ء بندیال نے کہا ہے کہ عدالتوں کے فیصلوں کی تعداد سے نہیں بلکہ ان کے میعار سے عوام کو انصاف ملتا ہے،اچھے فیصلوں سے ایک طرف غلطی کرنے والوں کو سزا ملتی ہے جبکہ معاشرے کے دیگر افراد غلطی کرنے سے رک جاتے ہیں اور معاشرہ امن کے راستے پر چل نکلتا ہے،انصاف کے عمل کو سپورٹ کرنے میں میڈیا کا کلیدی کردار ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پریس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام”عدالتی رپورٹنگ اور انصاف کی فراہمی“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے کیا ۔ سیمینار میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈائریکٹر جنرل پنجاب جوڈیشل اکیڈمی نے ادا کئے۔سیمینار میں ہائی کورٹ کے ججزورجسٹرار لاہور ہائی کورٹ،ضلعی عدلیہ کے ججز،پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے افسران،وکلاء اور صحافیوں نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدلیہ قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہے۔عدالتی فیصلوں کا بنیادی مقصد نظام کی درستگی ہے جو کسی ایک فرد کو سزا دینے سے نہیں حاصل نہیں ہو سکتا۔نظام اسی وقت ٹھیک ہو گا جب لوگوں کو یہ احساس ہو جائے کہ ہم نے قانون پر چلنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاء،میڈیا اور سول سوسائٹی نے اہم ترین کردار ادا کیا۔

عدلیہ اس تحریک میں میڈیا کے کردار کو تسلیم کرتی ہے۔عدالتی رپورٹنگ کا مجموعی میعار اعلی ہے۔ان کا عدالتی رپورٹرز کیلئے مشورہ ہے کہ وہ اہم مقدمات میں خبر بناتے ہوئے آپس میں مشاورت کر لیا کریں یہ ایک مثبت رجحان ہے جو ہر پروفیشن میں اختیار کیا جاتا ہے۔مقدمات کی ایسی رپورٹنگ ہونی چاہئے جس سے عدالتوں کا وقار اور ساکھ متاثر نہ ہو۔ اس کا مقصد کسی کی غلطی کا دفاع کرنا نہیں بلکہ انصاف کے عمل کو سپورٹ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالتیں وکلاء کے بغیر فیصلے نہیں کر سکتیں۔ایسا بار کی بہتر معاونت سے ہی ممکن ہے۔وکلاء نے عدلیہ بحالی کی تحریک ایک پتا توڑے بغیر چلائی جس میں میڈیا اور سول سوسائٹی کا بھرپور تعاون شامل تھا۔عدلیہ وکلاء کی اس خدمت کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتی۔پاکستان کا تصور دینے والے علامہ اقبال اور مملکت پاکستان بنانے والے قائد اعظم بھی وکیل تھے۔

چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان راجہ شفقت عباسی نے کہا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے اور رہنا چاہیے۔میڈیا کا آزاد ہونا ایک شہری کو اس کا حق دینے کے مترادف ہے۔انہوں نے عدالتی رپورٹنگ کو اہم ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں انتہائی ذمہ داری کی ضرورت ہے۔عدالتی رپورٹنگ کو مزید موثر بنانے کیلئے عدالتی رپورٹرز کیلئے تربیتی کورسز کا اجراء کیا جائے۔

پریس کونسل آف پاکستان پہلے بھی اس طرح کے سیمینارز کا انعقاد کر چکی ہے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔روز نامہ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر سعید آسی نے کہا کہ میڈیا کی آزادی کے ساتھ عدالتی رپورٹنگ میں فاضل عدالتوں کا تقدس ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ماضی کی نسبت عدالتی رپورٹرز کیلئے اب بہت آسانیاں ہیں۔سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ آزا د عدلیہ میں میڈیا کا بھی اہم کردار ہے۔

عدلیہ بحالی تحریک نے عدلیہ، وکلاء اور میڈیا کو بہت قریب کر دیا۔اگر ان کے درمیان کچھ فاصلہ بڑھا دیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ عدالتی رپورٹرز کیلئے ایک میعار مقرر ہونا چاہیے،یہ میعار عدلیہ مقرر کرے۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے کہا کہ میڈیا کی وجہ سے عدالتوں میں فعالیت آئی۔انتہائی اہم خبروں پر عدالتوں نے از خود نوٹسز لے کر لوگوں کی داد رسی کی۔مگر اس کے ساتھ میڈیا کا ضا بطہ اخلاق ہونا چاہئے جو صحافی تنظیمیں بنائیں۔انہوں نے کہا کہ وہ وکلاء تنظیموں میں مثبت اصلاحات کیلئے کام کر رہے ہیں۔سیمینار کے آخر میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پریس کونسل آف پاکستان کی طرف سے عدالتی رپورٹرز کو سرٹیفکیٹس دیئے۔