بچوں کو ماؤں کا دودھ پلانے اور نوزائیدہ بچوں کی غذائیت سے متعلق قانون کا مسودہ تیار کر لیاگیا ہے،شہرام خان تراکئی،جسے بہت جلد منظوری کیلئے صوبائی کابینہ اور اسمبلی میں پیش کیا جائے گا،سینئر صوبائی وزیر

پیر 9 جون 2014 22:31

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9جون۔2014ء) خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر برائے صحت شہرام خان تراکئی نے کہا ہے کہ بچوں کو ماؤں کا دودھ پلانے اور نوزائیدہ بچوں کی غذائیت سے متعلق قانون کا مسودہ تیار کر لیاگیا ہے جسے بہت جلد منظوری کیلئے صوبائی کابینہ اور اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔اس قانون کے نفاذ سے نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ پلانے کے بنیادی حق کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی اور اس طرح ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ایک صحت مند مستقبل دے سکیں گے۔

وہ پیر کے روز پشاور میں ”ماں کا بچوں کو دودھ پلانے کے تحفظ اور ان کی غذائیت “کے حوالے سے ایک سیمینار سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام”ہیلتھ ایجوکیشن اینڈ لٹریسی پروگرام(ہیلپ) اور ریسرچ اینڈ ایڈوکیسی“ نامی غیر سرکاری تنظیموں نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر نے کہا کہ ہمارے لئے بچوں اور ماؤں کی صحت سب سے اہم ہے کیونکہ بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں جنہیں صحت مند اور توانا بنانے کے لئے انہیں ماؤں کادودھ پلانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو نوزائیدہ بچوں کا بنیادی حق بھی ہے جس کو یقینی بنانے کے لئے صوبائی حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی۔

سیمینار میں ماہرین نے بچوں کی صحت اور مختلف مہلک بیماریوں کے خلاف ان میں قوت مدافعت کو بڑھانے کے لئے ماں کے دودھ کی اہمیت کے طبی ،سائنسی اور مذہبی پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ماہرین نے بتایاکہ دس سے پندرہ فیصد تک پانچ سال سے کم عمر بچوں کو صرف اور صرف ماں کا دودھ پلانے سے نوے فیصد تک بچایا جاسکتا ہے جبکہ پیدائش کے پہلے گھنٹے میں ماں کا دودھ پانے سے 22فیصد نوزائیدہ بچے اموات سے بچ سکتے ہیں۔

مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں صرف 37فیصد خواتین بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں جویہ شرح جنوبی ایشیاء میں سب سے کم ہے اور جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں وہ بار بار حاملہ ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بیماری اور غذائی قلت کاشکار ہو جاتی ہیں اور انکی موت واقع ہو جاتی ہے۔سیمینار میں حکومت پرزور دیاگیاکہ ماں کا دودھ پلانے کے تحفظ اور چھوٹے بچوں کی غذائیت کے حوالے سے قانون سازی کی جائے تاکہ بچوں کو ماں کادودھ پلانے کو یقینی بنایاجاسکے اور بچوں کو بوتل کے ذریعے مصنوعی دودھ پلانے کے رواج کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔

شہرام تراکئی نے اس شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور سرکاری اداروں پر زور دیاکہ وہ بچوں کو ماں کادودھ پلانے کی افادیت اور بوتل کے دودھ کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شعور دینے پر توجہ دیں اور اس سلسلے میں ڈاکٹرز،علماء اور میڈیا اپنااہم کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ قانون بہت پہلے بننا چاہیے تھا مگر ماضی میں کسی نے بھی اس اہم معاملے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

او رموجودہ صوبائی حکومت دیگر شعبوں میں تاریخی قوانین سازی کی طرح یہ قانون سازی بھی کرے گی کیونکہ ہم خالی خولی نعروں اور زبانی جمع خرچ پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں اور ہم جو کہتے ہیں وہ ضرور کر کے دکھاتے ہیں۔ سیمینار سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی معاون خصوصی برائے سماجی بہبود ڈاکٹر مہر تاج روغانی کے علاوہ ڈاکٹر شبینہ ریاض ،ڈاکٹر طفیل،ڈاکٹر درثمین اکرم اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :