فٹ بال حرام ہے‘اسرائیلی میڈیا نے پرانا سعودی فتویٰ ڈھونڈ نکالا

جمعہ 13 جون 2014 14:50

فٹ بال حرام ہے‘اسرائیلی میڈیا نے پرانا سعودی فتویٰ ڈھونڈ نکالا

یر وشلم(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 13جون 2014ء) دنیا کی نظریں اس وقت برازیل پر لگی ہوئی ہیں جہاں سب سے مقبول کھیل فٹ بال کے عالمی کپ ٹورنا منٹ کا آغاز ہوگیا ہے۔ایسے میں اسرائیلی میڈیا کی نظریں سعودی عرب کی جانب مرکوز ہوگئی ہیں اور اس نے ایک سعودی عالم دین شیخ عبدالرحمان البراق کا ایک سال پرانا فتویٰ ڈھونڈ نکالا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ فٹ بال کے کھیل سے لوگوں کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے،اس لیے اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔

اسرائیل کے ایک سابق ملٹری انٹیلی جنس افسر یگال کارمون اور اسرائیلی نڑاد امریکی ماہر سیاسیات میراف ورمسر کے قائم کردہ ادارے مڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (میمری) نے شیخ عبدالرحمان البراق کے اس فتویٰ نما بیان کا ترجمہ شائع کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ ''فٹ بال ایک ناپسندیدہ کھیل ہے ،اس سے لوگوں کے وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور وہ دشمنان اسلام کے غیر اخلاقی رسوم ورواج کو اپنا لیتے ہیں اور کافر فٹ بال کھلاڑیوں کو مقدس شخصیات کا درجہ دے دیتے ہیں''۔

میمری کے ترجمے کے مطابق شیخ البراق نے یہ فتویٰ ایک سائل کے سوال کے جواب میں جاری کیا تھا جس میں اس نے یہ پوچھا تھا کہ غیرملکی کھلاڑیوں کی مدح سرائی کرنے والے فٹ بال شائقین کے طرز عمل کا کیونکر جواب دیا جاسکتا ہے۔میمری نے داد تحقیق دیتے ہوئے فٹ بال کے کھیل کے خلاف یہ سعودی فتویٰ تو تلاش کر لیا اور اس کو ترجمے کے ساتھ شائع بھی کردیا ہے لیکن اس نے یہ بالکل بھی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ فتویٰ مارچ 2013ء میں جاری کیا گیا تھا اور نہ یہ بتایا ہے کہ اس کو سوا ایک سال کے بعد اب دوبارہ چھاپنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔

اس اخبار نے انٹرنیٹ پر ہی سہی،مزید تحقیق کرنے کے بجائے اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری خیال کیا ہے سعودی عالم دین شیخ عبدالرحمان البراق نے اپنے ''حالیہ فتویٰ'' میں فٹ بال کے کھیل کو اخلاقی اور سماجی طور پر ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔یہ معاملہ صرف یروشیلم پوسٹ تک ہی محدود نہیں رہا ہے بلکہ دوسرے اسرائیلی اخبارات نے بھی اس فتوے کو کسی قسم کے وضاحتی نوٹ کے بغیر شائع کرنا ضروری خیال کیا ہے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی رپورٹس کا معیار تحقیق کیا رہا ہو گا اور تحقیق کے نام پر ادارے میمری کا تحقیقی معیار کس پایہ کا ہے۔

متعلقہ عنوان :