انسان ایک بہترین تخلیق ہونے کے سبب سب مخلوق پر افضل اور اشرف حیثیت کا حامل ہے‘ چیف جسٹس(ر) عبدالمجید ملک

بدھ 25 جون 2014 18:22

میرپور(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25جون 2014ء)صدر جموں کشمیر لبریشن لیگ چیف جسٹس(ر) عبدالمجید ملک نے کہا ہے کہ تخلیق کائنات کا محور و مرکز انسان ہے ۔ انسان ایک بہترین تخلیق ہونے کے سبب سب مخلوق پر افضل اور اشرف حیثیت کا حامل ہے جس سبب اسلام میں احترام آدمیت اور انسانی حقوق کو فوقیت حاصل ہے اسی نسبت سے انسانی معاشرہ میں انصاف اور عدلیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے انسانی حقوق کا اعتراف اسلامی ریاست کے قیام کے وقت تحریری آئین کی شکل میں کیا گیا اور سوسائٹی کے حقوق کی برابری تسلیم کی گئی ۔

انصار مدینہ ، مہاجرین اور مدینہ میں مقیم یہودیوں کو مقامی طور پر مذہب کی آزادی کے ساتھ ساتھ دفاع اور خارجی امور کے علاوہ تمام حقوق حاصل تھے اور یہی تصور اور فلسفہ اسلامی فتوحات کے بعد یورپ کے اندرپہنچاجس نے موجودہ معروف سیاسی جمہوریت کی شکل اختیار کی ان دنوں آزاد مملکتوں میں انسانی حقوق اور آزادی کی ضمانت ہر ملک کے دستور میں فراہم کی گئی ہے جس کی اساس مسلم ریاست اور اسلام کے نظریہ حیات پر مبنی ہے ان خیالات کا اظہار صدر لبریشن لیگ نے بار ایسوسی ایشن میرپور کے خصوصی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی کیا ۔

(جاری ہے)

اجلاس کی صدارت صدر بار خالد رشید چوہدری نے اور فرائض نضامت سیکرٹری جنرل بار شبیر چوہدری نے کی ۔ جسٹس عبدالمجید ملک نے نظام عدل کی اہمیت اس کی ابتدا اور ارتقاء کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انسانی معاشرہ میں نظام حکومت کے فرائض میں نظم و ضبط اور معاشرہ کی ترقی کے فروغ کا انحصار صیحح نظام عدل اور احترام آدمیت کے ساتھ اور انسانی آزادیوں کے تحفظ پر منحصر ہے ۔

انہوں نے برطانوی امریکی اور یورپ کے دیگر ممالک میں رائج موجودہ جمہوریت کا پس منظر اور ارتقائی جہتوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گوکہ انسانی حقوق اور آزادیوں کا بہت چر چاہے اور اقوام متحدہ میں 10دسمبر 1948میں انسانی حقوق کے اعلان اور یو این چارٹر میں دی گئی ضمانت کے باوصف مجموعی طور پر ناانصافی کا دورہ دورہ ہے جابر اور طاقتور اقوام اپنے ارد گرد کمزور اقوام کے حقوق غصب کرتے اور اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں بدوں رکاوٹ مصروف ہیں چنانچہ مشرق وسطیٰ افغانستان اور جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اس دور کی واضع ناانصافی کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔

انہوں برصغیر تحریک آزادی اور انسانی حقوق کے احیاء کے ارتقاء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے 1926ء میں پہلی بار ذمہ دار نظام حکومت اور انسانی حقوق اور آزادیوں کا مطالبہ کیا جس کی قرار داد قائداعظم محمد علی جناح نے پیش کی اور اسی کی تائید نامور برصغیر کے مسلم لیگی رہنماؤں نے کی دوسال بعد کانگریس نے بھی ایسی قرار داد پاس کی تاہم اس مطالبہ کو برطانوی حکومت کے ہاں شنوائی حاصل ہوئی ۔

بلاآخر 1935ء میں چند بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ قبول کیا گیا ۔ا نہوں نے مختلف قوانین کا احاطہ کرتے ہوئے ظاہر کیا کہ پاکستان کے آئین 1962ء اور1973میں ووٹ کا حق دیا گیا جس کے تحت محدود نمائندگی کے بل بوتے پر قانون ساز اسمبلی معروضی وجود میں آئی ان حقوق کا دائرہ 1947ء میں وسیع کیا گیا اور جنوری 1947میں منتخب قانون ساز اسمبلی کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ۔

اتفاق سے آزاد خطے میں عوام ان حقوق سے محروم ہو گئے اور لبریشن لیگ کے قائد کے ایچ خورشید کی کوشش کے تحت 1960ء میں ووٹ کا حق ملا اور 1961ء میں صدر کے عہدہ اور قانون ساز کونسل کا انتخاب ہوا کونسل میں آزاد کشمیر اور مہاجرین مقیم پاکستان کو برابر نمائندگی دی گئی ۔ چونکہ آزاد حکومت کے قیام کے نصب العین میں تمام ریاست کی آزادی اور عوام کی نمائندگی کا دعویٰ شامل تھا ۔

اس طرح آزاد حکومت میں مقامی آبادی کے ساتھ مہاجرین کو برابری سطح نمائندگی کا اصول طہ کیا گیا تاہم 1969ء میں لبریشن لیگ کے صدر کے ایچ خورشید کی نئی جدوجہد کے نتیجہ میں ایکٹ1970ء کی شکل میں آزاد حکومت ماسوائے دفاع خارجی امور ، کرنسی اور کمیونیکشن کے علاوہ تمام اختیارات تفویض ہوئے مگر باوجوہ ایکٹ1974ء میں ترمیم کر کے آزادحکومت کے اختیارات جموں کشمیر کونسل کو تفویض ہوئے جس کی تشکیل ایکٹ 1974ء میں واضع کی گئی ۔

انہوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ آزاد کشمیر میں عدلیہ مکمل طور پر بااختیار اور آزاد ہے اور ماضی میں عدلیہ نے معروف فیصلوں کے ذریعہ اپنا اعلیٰ مقام اور ناموری حاصل کی انہوں نے وکلاء پر زور دیا کہ آزاد کشمیر کے چھوٹے سے خطے میں اہلیت ، صلاحیت ، دیانت اور جرات کی حامل سیاسی قیادت بہترین جمہوری نظام قائم کر کے قریب و جوار کے ممالک اعلیٰ مثال قائم کر سکتی ہے اسی طرح وکلاء اپنی محنت و صلاحیتوں سے آزاد کشمیر کی عدلیہ میں اعلیٰ فیصلوں کے حصول کیلئے ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔

میرپور کے وکلاء کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے آزاد کشمیر میں بہترین جمہوری سیاسی نظام اور اعلیٰ عہدوں پر میرٹ اور استحقاق اعلیٰ عہدوں پر تقرری کے اصول کیلئے نمایاں جدوجہد کی اور بالخصوص ریاست جموں کشمیر کی سیاسی و جغرافیائی و حدت اور حق خود ارادیت کے حصول کیلئے مسلسل جدوجہد کی جس بناء پر میرپور کے وکلاء کو جدوجہد آزادی میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری اب موجودہ وکلاء برادری پر ہے ۔