سعودی فرمانروا کی علالت، جانشینی پر قیاس آرائیاں

جمعہ 2 جنوری 2015 23:36

سعودی فرمانروا کی علالت، جانشینی پر قیاس آرائیاں

ریاض ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔2 جنوری۔2015ء ) سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک ہسپتال میں داخل90 سالہ سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے اپنے دو بھائیوں کو اپنا جانشین مقرر کر رکھا ہے لیکن تو وہ بھی عمر میں شاہ عبداللہ سے زیادہ چھوٹے نہیں ہیں۔ میڈیارپورٹ کے مطابق شاہ عبداللہ دنیا کی بزرگ ترین حکمران شخصیات میں سے ایک ہیں۔ نوّے برس کی عمر میں اْن کا بیمار ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن اْن کی بیماری اْن کی جانشینی کے اہم سوال سے جڑی ہوئی ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اْن کے دونوں جانشینوں کی عمریں بھی تقریباً اَسّی اور ستر برس ہیں۔1953ء میں سعودی عرب کی بنیاد رکھنے والے فرمانروا عبدالعزیز ابن سعود کے انتقال کے بعد سے یہی روایت چلی آ رہی ہے کہ ہمیشہ اْن کے سب سے بڑے بیٹے کو ملک کا بادشاہ بنا دیا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ اِس کا اہل ہو اور اِس منصب کو سنبھالنے کے لیے تیار بھی ہو۔

(جاری ہے)

بڑے بھائی کے انتقال کے بعد بادشاہت ہمیشہ اْس سے چھوٹے بھائی کو منتقل ہوتی رہی ہے۔ شاہ عبداللہ نے 2005ء میں اپنے بڑے بھائی شاہ فہد کے انتقال کے بعد عنانِ اقتدار سنبھالی تھی۔ شاہ فہد کی زندگی میں بھی اْن کی انتہائی زیادہ خراب صحت کی وجہ سے عملاً کاروبارِ مملکت عبداللہ ہی چلا رہے تھے۔سعودی شاہی خاندان کو خاص طور پر قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے، اس تصویر میں مسجد نبوی کا ایک منظر دیکھا جا سکتا ہیسعودی شاہی خاندان کو خاص طور پر قدامت پسند تصور کیا جاتا ہے، اس تصویر میں مسجد نبوی کا ایک منظر دیکھا جا سکتا ہیابن سعود نے کئی شادیاں کر رکھی تھیں اور اْن کے بیٹوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔

ابن سعود کے کئی جانشینوں کا تو انتقال بھی ہو چکا ہے، مثلاً سلطان اور نائف کا، جنہیں ابتدا میں عبداللہ کے جانشین مقرر کیا گیا تھا۔ اب تو ابن سعود کے پوتے تخت و تاج کے حصول کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ان پوتوں میں سے بھی کئی ابن سعود کے کم عمر ترین بیٹوں سے بڑی عمر کے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود اقتدار ابھی تک ابن سعود کے بیٹوں ہی کے پاس ہے اور اگلی نسل کو منتقل نہیں ہوا۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ اس حوالے سے شاہی خاندان میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہے۔ ایک ہی ماں کے بطن سے جنم لینے والے سات بھائی، جن میں فہد، سلطان اور نائف بھی شامل تھے، زیادہ با اثر سمجھے جاتے تھے۔ 2007ء میں شاہ عبداللہ نے جانشینی کے موضوع پر ایک کمیشن قائم کیا تھا، جس کا کام سعودی فرمانروا کی بیماری یا موت کی صورت میں جانشین کا انتخاب کرنا ہے۔ آیا یہ کمیشن درحقیقت وقت آنے پر اپنا کردار ادا کر سکے گا، ۔