مخالفت برائے مخالفت کی بجائے آئینی مسودے کا جائزہ لیا جائیگا‘پاکستان بار ،سپریم کورٹ بارکے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ،

موجودہ غیر معمولی حالات میں قومی قیادت نے مشترکہ لائحہ عمل دیا ہے ،فوجی عدالتوں کے قیام کو خصوصی حالات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، ہمیشہ آمریت اور فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ،آئین کے بنیادی ڈھانچے اور بنیادی انسانی حقوق کیخلاف اقدام ہوا تو مخالفت کی جائیگی

ہفتہ 3 جنوری 2015 22:33

مخالفت برائے مخالفت کی بجائے آئینی مسودے کا جائزہ لیا جائیگا‘پاکستان ..

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتاز ترین۔ 3جنوری2015ء) پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مشترکہ اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مشروط حمایت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے آئینی مسودہ سامنے آنے کے بعد دوبارہ مشترکہ اجلاس میں جائزہ لیا جائیگا ،وکلاء نے ہمیشہ آمریت اور فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ہے اگر مسودے میں آئین کے بنیادی ڈھانچے اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف کوئی اقدام ہوا تو اسکی بھرپور مخالفت کی جائیگی ۔

فوجی عدالتوں کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان بار کونسل اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منعقد ہوا ۔ اجلاس میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین برہان معظم ملک ‘ سپریم کورٹ بار کے صدر فضل حق عباسی ‘ سیکرٹری سپریم کورٹ بار چوہدری محمد مقصود ‘نائب صدر سپریم کورٹ بار میاں نثار عباس‘ احسن بھون سمیت دیگر نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا اور اتفاق کیا گیا کہ وکلاء اسکے مسودہ کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور فوجی عدالتوں کی مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوں گے۔عہدیداروں کا کہنا تھاکہ وکلاء نے ہمیشہ فوجی آمریت اور فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کی ہے مگر موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کے قیام کو خصوصی حالات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔

فوجی عدالتوں سے متعلق آئینی مسودہ دیکھ کر حتمی فیصلہ کیاجائے گا ۔ اجلاس کے بعد برہان معظم ملک نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں اس معاملے پر تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ وکلاء نے تاریخی طورپر کبھی بھی فوجی حکمرانی اور فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کی ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ غیر معمولی حالات میں قومی قیادت نے مشترکہ لائحہ عمل دیا ہے ایسے میں وکلاء مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی نہیں اپنائیں گے۔

اس کا آئینی مسودہ سامنے آنے پر دوبارہ مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا جس میں بغور جائزہ لیا جائیگا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر فضل حق عباسی نے کہا کہ وکلاء نے ہمیشہ مارشل لاء اور فوجی عدالتوں کی مخالفت کی ہے اور جمہوریت کے حامی ہیں ۔ موجودہ حالات میں سیاسی لیڈر شپ اکٹھی ہے اور ہم موجودہ حالات کے تناظر میں آئینی مسودے کو دیکھیں گے ۔ انہوں نے کہا دیکھا جائیگا کہ مسودہ آئین کے بنیادی سٹرکچر اور بنیادی انسانی حقوق کے خلاف تو نہیں اور اس حوالے سے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگے۔

متعلقہ عنوان :