مہاجروں کوقیام پاکستان کےبعد سےقبول نہیں کیا گیا،الطاف حسین

جمعرات 29 جنوری 2015 22:10

مہاجروں کوقیام پاکستان کےبعد سےقبول نہیں کیا گیا،الطاف حسین

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔29جنوری۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ مہاجروں کوقیام پاکستان کےبعد سےقبول ہی نہیں کیا گیا،مہاجروں نےقیام پاکستان میں ہراول دستےکاکرداراداکیا،مہاجروں نے30لاکھ جانوں کانذرانہ پیش کیا۔متحدہ کے قائد الطاف حسین کے بیان کہ کل کے بعد ایم کیوایم سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا، کل حیدر آباد یونیورسٹی سے ان کا آخری خطاب ہوگا کے بعد ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر جمع ہونے والے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین کا مزید کہنا تھا کہ 1964ءمیں انتخابات ہوئے، ایک طرف محترمہ فاطمہ جناح اوردوسری طرف ایوب خان تھے،مہاجروں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا،پٹھانوں کےقتل کاالزام متحدہ قومی موومنٹ پر لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مہاجروں نےکوٹاسسٹم کے نفاذ کے بعد پیپلزپارٹی کیخلاف کوئی مہم نہیں چلائی،سندھ میں 10سال کےلیےکوٹاسسٹم نافذ کردیا گیا،ایک دورتھا جب لاڑکانہ لوکل کونسل کا میئر مہاجروں کا اردو بولنے والا ہوتا تھا،مارمارکراندرون سندھ مہاجروں سےخالی کرالیا گیا، لاڑکانہ میں مہاجروں کی کثیرآبادی تھی، اب وہاں ایک بھی مہاجرنہیں ہے،مہاجروں نےکبھی سندھی آبادی پرحملےنہیں کیے، 1983ءتک 10سال کے لیے نافذ کیا گیا کوٹا سسٹم آج تک جاری ہے،مہاجروں کو مار مار کر اندرون سندھ ان سے خالی کرالیا گیا، مہاجروں کو تعلیم اور نوکری کا حق نہ ملنے پر11جون 1978ءکو اے پی ایم ایس او بنائی،اے پی ایم ایس او نے پہلا جلسہ 8اگست 1986ءکو نشترپارک میں کیا،حیدرآباد مارکیٹ چوک پر فائرنگ سے ایم کیو ایم کے 6کارکن شہید ہوئے، 30اکتوبر 1986ءکوحیدرآباد جلسے سے پہلے سہراب گوٹھ میں کارکنوں پر فائرنگ کرائی گئی،حیدرآباد جلسے کے بعد روانہ ہوا تو گھگھر پھاٹک کے قریب مجھے گرفتار کر لیا گیا،1988ءمیں پیپلزپارٹی سے اتحاد کیا لیکن اس میں بھی کارکنان کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پکاقلعہ جلسےمیں کارکنوں کی شہادت کاذکرتک نہیں کیاکہ کہیں آگ نہ پھیل جائے،1990ءمیں نوازشریف سے اتحاد کیا اور انہوں نے بھی وعدے کیے، کوئی غریب اقتدار تو کیا انتخاب لڑہی نہیں سکتا،مجھے بریف کیس دیا گیا جس پر میں نے کہا کہ یہ پیسا واپس لے جاؤ،میں نے کہا کہ میں اس مٹی سے نہیں بنا جو اپنے ضمیر کا سودا کرتا ہو، ایم کیوایم کےغریب عوام کاجب پیغام پھیلنےلگاتووفودہمارےپاس آنےلگے۔

انہوں نے کہا کہ 30ستمبر 1988ءکو شام ساڑھے 5بجے 10گاڑیاں حیدرآباد میں داخل ہوئیں اور گولیاں چلاکر 200سے زائد افراد کو شہیدکردیا گیا،14دسمبر1986ءکو جیل میں تھا جب قصبہ علیگڑھ میں بچوں اور بچیوں کو مارا گیا،پولیس کی سرپرستی میں مظالم ڈھائے گئے،ولی خان کو ایم کیو ایم سے متعلق غلط باتیں بتائی گئیں،یہ کہاگیاکہ ایم کیوایم پٹھانوں کی دشمن ہے،میں نےولی خان کوجیل سےخط بھجواکرسازش سےآگاہ کیا، میرےخط کےبعداجمل خٹک اورغلام احمدبلور نائن زیرو آئے اور پٹھان مہاجروں کا ملاپ ہوگیا۔

الطاف حسین کا کہنا تھا کہ جب میں نےکراچی میں طالبانائزیشن کی بات کی تومیری مخالفت کی گئی، وزیراعلیٰ سندھ،وزراءسمیت پیپلزپارٹی نےکہاکہ کراچی میں طالبانائزیشن نہیں ہورہی،آصف زرداری پرجب براوقت آیا تو پیپلزپارٹی کی قیادت بلوں میں گھس گئی،آصف زرداری کا برے وقت میں اگر کسی نے ساتھ دیا تو صرف میں نے دیا،آصف زرداری نے وزیرداخلہ سے امن کمیٹی بنوا کر ہمیں صلہ دیا، بسوں سے اتار کر مہاجروں کو لیاری میں لے جایا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا، میں نے آج تک کارکنوں کو حب الوطنی کا درس دیا ہے،اگراسی طرح لاشیں گرتی رہیں توردعمل بھی آسکتاہے،کچھ لوگ کہتے رہے کہ ایم کیوایم بہت اچھی ہےلیکن مائنس الطاف حسین کے ساتھ۔

اس بات پر ایم کیوایم کےکارکنوں ’’الطاف الطاف‘‘ ’’رہبررہبرالطاف ہمارارہبر‘‘ کے نعرے لگائے۔