حکمران امریکہ سے مطالبہ کریں کہ وہ پاکستان سے بھی سول نیوکلیئر سمجھوتہ کرے،یوسف رضاگیلانی کا مطالبہ، خطے میں طاقت کا توازن قائم رہنا چاہئے، عدم توازن تشویشناک ہے‘ موجودہ حکمران میرے جاری کردہ منصوبوں پر عمل کرتے تو جنوبی پنجاب میں انقلاب آچکا ہوتا، پیپلزپارٹی میں دو سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے،مخدوم احمد محمود،سرائیکی صوبہ بنانے میں دیر نہ کی جائے،ملک مختار اعوان، پیپلزپارٹی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کاشتکار بدحال ہیں،ملک نور ربانی کھر،پی پی رہنماؤں کاملتان میں کنونشن سے خطاب

ہفتہ 31 جنوری 2015 18:57

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔31جنوری۔2015ء) سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن قائم رہنا چاہئے، عدم توازن تشویشناک ہے‘ موجودہ حکمران امریکہ سے ڈیمانڈ کریں کہ وہ بھارت کی طرح پاکستان سے بھی سول نیوکلیئر سمجھوتہ کرے ورنہ خطے میں عدم توازن پیدا ہوجائے گا، موجودہ حکمران میرے جاری کردہ منصوبوں پر عمل کرتے تو جنوبی پنجاب میں انقلاب آچکا ہوتا۔

۔ یہ بات انہوں نے ہفتہ کی سہ پہر ملتان کے ایک مقامی ہوٹل میں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے تنظیمی کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی ایک تحریک اور مشن ہے۔ یہ مشن پہلے بے نظیر بھٹو کا مشن ہے جو پورا ہونا چاہئے اور پورا کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آج لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو پیپلزپارٹی میں تبدیلی آگئی ہے۔ آج میرا بھائی مجتبیٰ گیلانی میرے بیٹے عبدالقادر اور موسیٰ گیلانی‘ نوابزادہ نصراللہ خان کے صاحبزادے نوابزادہ افتخار یہاں موجود نہیں ۔

یہ پیپلزپارٹی کی تبدیلی ہے اور ہم نے تبدیلی کیساتھ آگے چلناہے۔ ہمیں اپنا غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کچھ وعدے لئے تھے جس میں 73ء کے آئین کی بحالی کا وعدہ بھی تھا جو میں نے آئین بحال کرکے پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء کے انتخابات کے بارے میں پیپلزپارٹی کا واضح موقف ہے کہ اس میں دھاندلی ہوئی ہے اور ان انتخابات میں پیپلزپارٹی کو کھیلنے کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا اور انتخابات ہارنے کے بعد میں نے اپنا استعفیٰ بحیثیت سینئر وائس چیئرمین پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو بھجوادیا تھا اب یہ ان کی مرضی ہے کہ انہوں نے میرا استعفیٰ کیوں منظور نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی سیاست اور حکومت کی سیاست مختلف ہے۔ ماضی میں جب ہم اقتدار میں آئے تو اس وقت ہمارے پاس 124 ارکان اسمبلی تھے جبکہ ہمیں حکومت بنانے کیلئے 172 کی ضرورت تھی جو ہم نے پوری کی اور پیپلزپارٹی نے حکومت بنائی اور اللہ کے فضل و کرم سے اقتدار کے پانچ سال پورے کرکے جمہوری انداز میں اقتدار منتقل کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں بہت اچھے کام کئے لیکن ان کی صحیح طور پر تشہیر نہ ہوسکی اور بہت سے ایسے کام بھی کئے ہوں گے جوکہ پیپلزپارٹی کیلئے نقصان کا باعث بنے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا منشور روٹی کپڑا اور مکان ہے اور جتنی ضرورت آج روٹی کپڑا اور مکان کی ہے اتنی ہی کل بھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ کے ذریعے لاکھوں افراد کو وظیفہ دینا شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو کاشتکار خوشحال تھا لیکن آج کاشتکار خوشحال نہیں ہے۔ ہماری ایگریکلچر فرینڈلی پالیسی تھی۔

ہم چاہتے تھے کہ کاشتکار خوشحال ہو مگر کاشتکار کو مشکلات کا سامنا ہے۔ چاول اور گنے کی قیمت نہیں مل رہی۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو معلوم نہیں کہ میں نے کتنی جیل کاٹی مگر میں آج بتاتا ہوں کہ میں نے نوکریاں دینے کے جرم میں پانچ سال جیل کاٹی۔ اس ملک میں دو قانون ہیں ایک کسی اور کیلئے اور دوسرا کسی اور کیلئے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے میرا کیس نیب میں بھیجا جبکہ چیئرمین سینٹ کا کیس اپنے پاس رکھا۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا کارکن مضبوط ہے‘ نڈر ہے اور چھپتا نہیں اور بکتا نہیں۔ بڑے بڑے لوگ بددل گئے مگر کارکن وہیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم حکومت میں تھے تو ہم نے طالبان سے مذاکرات نہیں کئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امریکہ اور یورپ کی پالیسی ہے اور آج حکومت ہماری پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہمارے دور میں بجلی کا بحران تھا تو ہمارے ایم این ایز کے گھروں پر حملے کئے گئے اور جلسے جلوس نکالے گئے اور کہا گیا کہ ہم اقتدار میں آکر تین ماہ میں بحران ختم کردیں گے مگر آج دو سال گزرنے کے باوجود موجودہ حکمران بجلی بحران پر قابو نہیں پاسکے۔

انہوں نے کہا کہ آج سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ امریکہ بھارت سے نیوکلیئر ڈیل کر رہا ہے اور ہم دہشت گردی کیخلاف لڑ رہے ہیں۔ ہمارے پچاس ہزار لوگ اور ہزاروں فوجی شہید ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ سول نیوکلیئر ڈیل ہمارے ساتھ بھی ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اپنے منشور پر عمل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے مابین چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوئے تھے۔

میں نے اس چارٹر آف ڈیموکریسی پر 85 فیصد عمل کیا۔ 15 فیصد عمل اپوزیشن نے کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔ نواز شریف سے مطالبہ ہے کہ وہ 15 فیصد چارٹر آف ڈیموکریسی پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں صوبے کی بات ہوئی ہے آصف زرداری نے صوبے کی بات کی تھی۔ ہم نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی قراردادیں منظور کرائیں مگر حکمران بہاولپور صوبہ بنانا چاہتے ہیں نہ صوبہ جنوبی پنجاب۔

میں مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ صوبوں کی قراردادوں پر عمل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں کی محرومیاں ختم کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ حکمران میرے جاری کردہ منصوبوں پر عمل کرتے تو جنوبی پنجاب میں انقلاب آچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ملتان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو آپریشنل ہونا چاہئے۔ ملتان میں کینسر ہسپتال بننا چاہئے۔ لشکر گھاٹ پل مکمل ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ ہمارا حق ہے جو ہم لے کر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مخدوم احمد محمود نے الیکشن کی بات کی ہے تو تین ماہ میں ملتان میں مثالی تنظیم بناکر پیش کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ کارکنوں نے مشکل حالات میں بھی ہمارا ساتھ دیا ہے اور میڈیا سے کہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جو اپنے پارٹی اجلاس میں میڈیا سے کوریج کروارہی ہے اور اس میں جو کارکنوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی ہے یہ جمہوریت کا حصہ اور اتفاق رائے ہے۔

قبل ازیں پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے نامزد صدر مخدوم احمد محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی میں دو سال کے اندر انتخابات کرائے جائیں گے اور پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کی نمائندگی جیسے پہلے کی تھی اب بھی کرے گی اور پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں جیت کر اپنی حکومت بنائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تین ماہ میں تنظیم سازی کی جائے گی۔ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے فرحان گیلانی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو ایجنسیوں نے 2013ء کے انتخابات میں ہرایا ہے اور بلاول کے پاس نوجوانوں کی اکثریت موجود ہے۔

ملک الطاف نے کہا کہ بھٹو سنٹر بنائے جائیں۔ملک مختار احمد اعوان نے کہا کہ صوبہ بنانے میں دیر نہ کی جائے‘ سرائیکستان صوبہ بنایا جائے۔ مخدوم مرتضیٰ محمود نے کہاکہ جب تک جیالوں کا جوش و جذبہ باقی ہے پیپلزپارٹی کو کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ ایم این اے ملک نور ربانی کھر نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کاشتکار بدحال ہیں۔

گنا اور چاول کوئی بھی نہیں خرید رہا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میں کہیں بھی نہیں جارہا۔ میرا مرنا جینا پیپلزپارٹی کیساتھ رہے گا۔ پیپلزپارٹی کے صدر خالد حنیف لودھی نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے کارکن منظم ہیں اور کارکنوں کو ان کا حق ملنا چاہئے۔ جب ہم اقتدار میں ہوتے ہیں تب بھی کارکنوں کو وقت نہیں دیتے اور اب بھی نہیں ملتے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ کے انتخابات میں جو نشستیں ہیں وہ کارکنوں کو دینی چاہئیں اور غلطیوں کی اصلاح کرنی چاہئے۔

سابق ایم این اے محمود حیات ٹوچی خان نے کہا کہ کارکنوں کو قریب لائیں اور انہیں محبت دینے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی سے بے وفائی کرنے والے مصنوعی بٹیرے چلے گئے ہیں۔ ہم نے پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنا ہے۔ پیپلزپارٹی کو منظم کرنا چاہئے اور پیپلزپارٹی (ن) لیگ کیساتھ تعلقات پر نظرثانی کرے۔ کارکنوں کو یہ پالیسی منظور نہیں۔