چترال،مغلیہ دور کے قبرستان بزرگان دین اور اولیاء کے مزارات اور تاریحی مسجد ٹوٹ پھوٹ کاشکار

بدھ 4 فروری 2015 17:08

چترال/پشاور)اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 04فروی 2015ء) جو قومیں اپنی تاریحی ورثہ کو بھول جاتے ہیں وہ مٹ جاتے ہیں۔ یہی کچھ ہمارے تاریحی ورثے کے ساتھ ہورہا ہے ۔ پشاور شہر میں معروف اور تاریحی اہمیت کے حامل وزیر باغ روڈ پر مغلیہ دور کے طرز تعمیر اور اولیاء کرام کے مزارات کے ساتھ ایک تاریحی مسجد بھی موجود ہے جو آہستہ آہستہ حتم ہورہی ہے۔1709 عیسوی میں تعمیر شدہ یہ مسجد اور قبرستان آج بھی اپنے تئیں میں نہایت حوبصورت فن تعمیر کا شاہکار ہے جو مغل طرز تعمیر کی منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس قبرستان میں شیح حبیب بابا، سردار محمد ابراہم خان، خلد مکان امیر یر علی خان والئی افغانستان اور دیگر ایسے لوگوں کے مزار موجود ہیں جنہوں نے کسی جہاد یا فرنگیوں کے حلاف جنگ میں حصہ لیا تھا یا دین کی سربلندی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دیا تھا۔

(جاری ہے)

زیادہ تر مزار ایسے بھی ہیں جو افغانستان سے آکر یہاں دفنائے گئے ہیں۔بعض تاریحی حستیاں بھی اس قبرستان میں دفنائے گئے ہیں جو اب لاوارث پڑ ہے اور زیادہ تر اس میں نشائی لوگ اور کتے پلتے ہیں۔

#تاریح کے معرف جنگ میوند کے مقام پر ہوا تھا جس کا غازی سردار محمد ایوب خان نے اس جنگ میں حصہ لیا تھا اور بعد میں وہ برصغیر آکر وفات پاگیا اس وقت پاکستان نہیں بنا تھا اسلئے افغانستان کے زیادہ تر حکمران اور سردار بھی یہاں آکر قیام کرتے تھے۔اس قبرستان کے ساتھ ایک تاریحی مسجد بھی تعمیرکی گئی ہے جس میں اس زمانے میں سنگ مر مر سے پانی کا تالاب بنایا گیا تھا اور آج بھی اسے وضو کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس تاریحی مسجد میں ایک دینی مدرسہ بھی ہے اس میں پڑھانے والے ایک قاری صاحب کا کہنا ہے کہ یہ نہایت تاریحی اہمیت کے حامل مسجد ہے مگر یہ یارومددگار ہونے کی وجہ سے ابھی حتم ہورہی ہے مقامی لوگ چندہ کرکے اس کی مرمت تو کرتے رہتے ہیں مگر متعلقہ سرکاری اداروں کو چاہئے کہ فن تعمیر کے ماہرین کی مدد لے کر اس کی اس طرز سے مرمت کرے تاکہ اس کی اپنی اصلی حالت حراب نہ ہو۔

ایک سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ اس تاریحی قبرستان کا باقاعدہ چاردیواری تھی اور اس میں گیٹ بھی لگایا گیا تھا چاردیواری تو لینڈ مافیا نے حتم کیا گیٹ کو قبضہ مافیا اکھاڑ کے لے گیے اور اب اس میں چور اور نشائی لوگ بیٹھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ قبرستان رات کے وقت نہایت حطرناک تصور کیا جاتا ہے۔مقامی لوگوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس تاریحی قبرستان اور مسجد کی تعمیر و ترقی اور حفاظت کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے تاکہ ایسا نہ ہو کہ مستقبل میں ان کی حبریں صرف کتابوں میں ملے اور نئے نسل کی اپنے تاریحی ورثے کے بارے میں عملی طور پر کچھ بھی نہ ملے۔