کشمیری تاجروں کے قبضے میں لئے گئے 45 ٹرک واگزار کرا ئیجا ئیں، تاجروں سے 60 لاکھ روپے تاوان طلب کئے جانے کا نوٹس لیا جائے۔ 45 ٹرکوں میں کروڑوں روپے کا فروٹ موجود ہے جو تباہ ہو رہا ہے۔ اگر فوری طور پر عباسیاں کے مقام پر زبردستی قبضے میں لی گئی گاڑیاں واگزار نہ کرائی گئیں تو تاجر 24 گھنٹوں کے اندر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے، انٹرا کشمیر ٹریڈ کے تاجروں کا وفاقی حکومت‘ حکومت آزاد کشمیر اور وزارت خارجہ سے مطالبہ

پیر 9 فروری 2015 16:23

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 09فروی 2015ء) انٹرا کشمیر ٹریڈ کے تاجروں نے وفاقی حکومت‘ حکومت آزاد کشمیر اور وزارت خارجہ سے مطالبہ کیا ہے کہ عباسیاں کے مقام پر کشمیری تاجروں کے 45 ٹرک جو قبضے میں لئے گئے ہیں انہیں واگزار کرایا جائے اور تاجروں سے 60 لاکھ روپے تاوان طلب کئے جانے کا نوٹس لیا جائے۔ 45 ٹرکوں میں کروڑوں روپے کا فروٹ موجود ہے جو تباہ ہو رہا ہے۔

اگر فوری طور پر عباسیاں کے مقام پر زبردستی قبضے میں لی گئی گاڑیاں واگزار نہ کرائی گئیں تو تاجر 24 گھنٹوں کے اندر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انٹرا کشمیر ٹریڈ کے صدر خورشید احمد میر‘ مبارک اعوان‘ محمود ڈار‘ اشرف ڈار‘ تنویر قریشی‘ بشارت نوری اور دیگر نے تاجروں کے ہمراہ مرکزی ایوان صحافت میں پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ آر پار تجارت کو متاثر کرنے کے لئے شروع دن سے ہی ایک لابی متحرک ہے۔ لائن آف کنٹرول کے ذریعے تجارت کے دوران مقبوضہ کشمیر کی ٹریڈ اتھارٹی کی طرف سے دوسری مرتبہ ہیروئن برآمد ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حالانکہ اس پار سے چکوٹھی ٹرمینل پر تمام گاڑیوں کو سکینگ ہوتی ہے اور گاڑیاں کلیئر کر کے مقبوضہ کشمیر میں بھیجی جاتی ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے دفاتر خارجہ کی سطح پر یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ آر پار تجارت کے دوران ممنوعہ اشیاء برآمد ہونے کی صورت میں جائنٹ انوسٹی گیشن کی جائیگی۔ لیکن ابھی تک جائنٹ انوسٹی گیشن کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جائنٹ انوسٹی گیشن کے بغیر اس معاملے کا حل ممکن نہیں۔ جس گاڑی سے ہیروئن برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئیں۔

ٹرک ڈرائیور بے گناہ ہے۔ اس کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے۔ تاجران کا کہنا تھا کہ حکومتی سطح پر ٹریڈ لاوارٹ ہے اور اس کس مستقبل کا تعین نہیں کیا جا سکا۔ معاہدے کے تحت مظفر آباد اور سرینگر میں منڈیاں قائم کی جانی تھیں مگر یہ منڈیاں قائم نہیں کی گئیں جس کی وجہ سے یہ مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ انٹرا کشمیر ٹریڈ اینڈ ٹریول اتھارٹی کس کے سامنے جوابدہ ہے تاجر اس سے لاعلم ہیں اور ٹاٹآ کے سامنے تاجر بے بس ہیں۔

تاجر 55 سے 60 لاکھ روپے ماہانہ ٹاٹا کو ادا کرتے ہیں اس کے باوجود اس قسم کے واقعات رونما ہونا لمحہ فکریہ ہیں۔ سکینگ کے نام پر 5 ہزار روپے فی گاڑی فیس وصول کی جاتی ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دو طرفہ تجارت کو مانیٹر کریں اور اسے کالی بھیڑوں سے پاک کریں۔ دوطرفہ تجارت کو کامیاب بنانا اور تاجران کے مسائل حل کرنا دونوں اطراف کی ٹریڈ اتھارٹیز کی ذمہ داری ہے اور ہر واقعہ کی ذمہ دار یہی اتھارٹیز ہیں۔

متعلقہ عنوان :