کراچی کی سول سوسائٹی کا پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو نوبل انعام یافتہ شخصیات ملالہ یوسف زئی اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو سرہانے کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کلفٹن کیمپس میں جشن ملالہ کا اہتمام

پیر 16 فروری 2015 17:43

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16فروی 2015ء) کراچی کی سول سوسائٹی نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو نوبل انعام یافتہ شخصیات ملالہ یوسف زئی اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمات کو سرہانے کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے کلفٹن کمپس میں گذشتہ دن جشن ملالہ کا اہتمام کیا جس میں مقررین نے ان دو پاکستان شخصیا ت کی خدمات کو سراہا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ پنجاب یونیورسٹی کا نام ڈاکٹر عبدالسلام یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کا نام ملالہ یوسفزئی یونیورسٹی رکھا جائے۔

اس موقع پہ خطاب کرنے والوں میں انیس ہارون، نفیسہ شاہ ایم این اے، مہناز رحمان و دیگر شامل تھے۔ ملالہ یوسف زئی کا اس موقع کے لیے رکارڈ شدہ وڈیو پیغام بھی پیش کیا گیا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی پہ تیار کی جانے والی ڈاکومینٹری کی کچھ جھلکیاں بھی پیش کی گئی۔ پروگرام کے آخر میں شیما کرمانی نے اپنے گروپ کے ساتھ فہمیدہ ریاض کی شاعری پر پرفارمنس پیش کی۔

اس موقع پہ پاس کی گئی ایک قراردا میں ہر طرح کی انتہا پسندی، عدم برداشت، مذہبی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔ ہم سزا سے بریت کی بھی مذمت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ریاست جان ومال اور تحفظ کے آئینی حق کو یقینی بنانے میں ناکام نظر آتی ہے۔ قرار داد میں حکومتی ناکامیوں کی وجہ سے ہونے والی لاقانونیت کالعدم تنظیموں کی جانب سے مسلسل ند ہبی اقلیتوں اور اداروں کو نشانہ بنانے کی بھی بھر پور مذمت کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ان گروپوں کے حامی اور ہمدردوں کی بھی مذمت کی گئی ہے جنھوں نے پورے معاشرے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ عوام مخالف تحریک کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائے اور شر پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ معاشرے سے تمام امتیازات کو ختم کردیا جائے۔ اور ملک کو انتہا پسندی اور تشدد سے پاک کیا جائے۔ ہمارے قانون سازوں کو قطع نظر طبقے، رنگ، نسل ، مذہب، فرقے، تمام شہریوں کے جان و مال اور تحفظ کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔

ایگزیکٹو کو یقینی بنانا ہوگا کہ تمام ادارے بشمول پولیس موثر اور منصفانہ طور پر بنا کسی سیاسی دباؤ کے اپنی ذمہ داریاں انجام دیں۔عدلیہ عدالتی نظام کے موثر ہونے کے لیے جوابدہ ہے ۔اس ذمہ داری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو نا چاہیے۔ ملک کوہر طرح کے تعصبات سے پاک کرنے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مثبت اقدامات کئے جائیں۔

ریاست اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک کے ہر دیہات میں پرائمری اور مڈل اسکول موجود ہوں جہاں لڑکیا ں تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس ضمن میں بلوچستان اور خیبر پختنخواہ میں خاص توجہ دی جائے جہاں دوسرے صوبوں کی نسبت شرح نا خواندگی زیادہ ہے۔ اورحکومت بلا کسی امتیاز رنگ، نسل، جنس طبقے اور فرقے تعلیم کا بندوبست کرے۔ کسی فیملی اور گروپ خواں عسکریت پسند ہو یا کوئی اور کسی کو بچے کی تعلیمی ضرورت میں رکاوٹ بننے کی اجازت نہ دی جائے۔

ایسے کسی بھی اقدام کی روک تھام کی جائے اور اسے سنگین جرم قرار دے کر سخت سزائیں دی جائیں۔دینی مدارس میں اصلاحات کی جائیں۔ملکی سطح پر صنفی، مذہبی تعصب سے پاک ایک نصاب یقنی بنایا جائے تاکہ موجودہ ثقافتی اور مذہبی تعصب کو ختم کیا جا سکے۔ تعلیمی اصلاحات کی نامور ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ذریعے نگرانی کی جائے جو اپنی رپورٹ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جمع کرسکیں۔

یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام طالب علموں اور تعلیمی اداروں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کا 6فیصد تعلیم پر خرچ کرے۔ مالیاتی اور غیر مالیاتی رکاوٹوں کو ہٹا کر حکومت سب کے لیے معیاری تعلیم کو یقینی بنائے۔ کالعدم تنظیموں کی کڑی نگرانی کی جائے ۔ ان کی قیادت کو گرفتار کر کے عدالتی عمل کے مطابق کیفر کردار تک پہینچایا جائے۔

ٹی ٹی پی ،طالبان اور دیگرفرقہ ورانہ گروپوں کے ساتھ کسی قسم کے کوئی مذاکرات نہ کئے جائیں۔حکومت اس طرح کے سفاکانہ گروہوں کے لیے کسی قسم کی نرمی نہ کی جائے۔ اسکولوں اور عبادت گاہوں پر حملے شرمناک ہیں۔ان کی فوری روک تھام کی جائے یہ ریاست وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔پاکستان میں سول سوسائٹی کو عوام مخالف قوتوں کے خلاف اٹھنا ہوگا چاہے وہ قوتیں حکومت کے اندر ہوں یا حکومت سے باہر۔ سول سوسائٹی کو حکومت اور اس کے اداروں کو جوابدہ بنانے کے یے اپنا کرداربھی ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ پاکستان کی صورت گری انصاف اور جمہوریت کے اصولوں کے عین مطابق کی جائے۔