گلو بٹ کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والی پولیس دہشتگردی پروان چڑھارہی ہے، آرمی چیف اپیکس کمیٹیوں پر براہ راست نظر رکھیں‘ خرم نواز گنڈاپور

ہفتہ 21 فروری 2015 17:32

لاہور ( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21فروی 2015ء) پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور نے کہا ہے کہ آرمی چیف اپیکس کمیٹیوں پر براہ راست نظر رکھیں، رات کے اندھیرے میں وزیراعلیٰ کو رپورٹس دینے والے ”تابعدار“پولیس افسران قومی ایکشن پلان کو ناکام بنانے کے ٹاسک پر ہیں، صوبہ کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے پولیس کے اندر ہر سطح کے تقرر و تبادلہ کے عمل سے وزیراعلیٰ پنجاب کو الگ کرنا ضروری ہے۔

گزشتہ روز مرکزی سیکرٹریٹ میں وکلاء ونگ کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں خاتون سکول ٹیچر اور اس کے خاوند کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ کی تحقیقات کی جائے کیونکہ ایک اطلاع ہے کہ سکول انتظامیہ کی کرپشن کی نشاندہی پر یہ دہشتگردی کا ڈرامہ رچایا گیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ خادم اعلیٰ کی تربیت یافتہ پولیس بے گناہوں پر مقدمات درج کر کے انتشار پھیلانے میں بڑی مہارت رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلو بٹ کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنے والی سیاسی پولیس دہشتگردی اور جرائم کو پروان چڑھارہی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف موثر کارروائی اور پنجاب پولیس کو جرائم کی دلدل سے نکالنے کیلئے پولیس کووزیرعلیٰ کے چنگل سے آزاد کرانے کا وقت آ گیا ہے ۔ایک ایسا وزیراعلیٰ جس کے خلاف بے گناہوں کی جان لینے کے حوالے سے دہشتگردی کی ایف آئی آر درج ہو وہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے مدد گار کیسے ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کے بطور عوام دوست ادارہ کا تشخص قائم کرنے کیلئے نئی قانون سازی اور پولیس کو رشوت خور ، کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کیلئے محکمہ کے اندر ضرب عضب طرز کے آپریشن کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن وزیراعلیٰ سے تقرر و تبادلہ کا اختیار لے لیا گیا اسی دن آدھے جرائم ختم ہو جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کو غاصب انگریز بھی اس طرح استعمال نہیں کرتا تھا جس طرح آج کے ”جمہوری حکمران“ بالخصوص پنجاب کاموجودہ وزیراعلیٰ استعمال کررہا ہے۔

پولیس کے ذاتی اور سیاسی استعمال کے باعث دہشتگردی میں اضافہ اور لاء اینڈ آرڈر تباہ وبرباد ہو چکا ہے ۔انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے جو تجاویز دی تھیں ان میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی فورسز، پولیس اور تمام متعلقہ اداروں کو براہ راست فوج کے کنٹرول میں دے دیا جائے مگر افسوس یہ بنیادی فیصلے کرنے میں بھی 2 ماہ ضائع کر دئیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس دہشتگردی کے خلاف پہلی چیک پوسٹ ہے اگر اسے ٹھیک نہ کیا گیا تو دہشت گرد ہمارے گھروں ،مارکیٹوں ،سکولوں اور عبادت گاہوں کا نشانہ بناتے رہیں گے۔

متعلقہ عنوان :