مونا باؤ اور اٹاری کا موجودہ انفرااسٹرکچر پاک بھارت تجارت کی راہ میں رکاوٹ ہے،بھارتی ہائی کمشنر،

واہگہ کے راستے تجارت بڑھانے کیلئے ہمیں اپنی پالیسیز پر دوبارہ غورکرنے کی ضرورت ہے،پاکستان افغانستان کو اپنے نصیب پر چھوڑ دے کیونکہ پاکستان اور افغانستان آزاد ممالک ہیں اس لئے دونوں اپنے تجارتی فیصلے خود کریں ، ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون کا تقاریب سے خطاب

جمعرات 12 مارچ 2015 21:16

مونا باؤ اور اٹاری کا موجودہ انفرااسٹرکچر پاک بھارت تجارت کی راہ میں ..

کراچی ( اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار . 12 مارچ 2015ء) بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون نے کہا ہے کہ مونا باؤ اور اٹاری کا موجودہ انفرااسٹرکچر پاک بھارت تجارت کی راہ میں رکاوٹ ہے،واہگہ کے راستے تجارت بڑھانے کیلئے ہمیں اپنی پالیسیز پر دوبارہ غورکرنے کی ضرورت ہے،پاکستان افغانستان کو اپنے نصیب پر چھوڑ دے کیونکہ پاکستان اور افغانستان آزاد ممالک ہیں اس لئے دونوں اپنے تجارتی فیصلے خود کریں۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے کرا چی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(کے سی سی آئی) اور کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(کاٹی)میں الگ الگ تقاریب سے خطاب کے دوران کہی۔کراچی چیمبر میں بزنس مین گروپ کے چیئرمین سراج قاسم تیلی،ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹوایس ایم منیر،چیمبر کے صدرافتخار وہرہ،انجم نثار ،اے کیوخلیل،مجیدعزیزابراہیم کسومبی اور دیگر نے جبکہ کاٹی میں ایس ایم منیر،کاٹی کے صدر راشداحمدصدیقی،سینیٹرعبدالحسیب خان،کاٹی کے قائمہ کمیٹی برائے ڈپلومیٹک افیئر کے چیئرمین مسعودنقی،سابق چیئرمین کاٹی گلزارفیروز نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

کراچی چیمبر میں خطاب کے دوران بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان رشتے چاہے ایک ہی کیوں نہ ہوں مگر ان میں کبھی کبھی کڑواہٹ آجاتی ہے اگر اسی طرح لڑتے جھگڑتے رہے تو مزید 60 سال نکل جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کیلئے آگے بڑھنے کے سوا ء کوئی راستہ نہیں اور ترقی کا راستہ باہمی تجارت ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاجروں کی جانب سے ویزوں کے مسئلے کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں کراچی چیمبر کے ساتھ ہفتہ وار وڈیو کانفرنس میں ویزوں کے مسئلوں پر بات چیت کی جائے گی، تاہم انہوں نے تجویز دی کہ پاکستانی بزنس مین بھارت کیلئے ملٹی پل ویزے کیلئے درخواستیں دیں اور ویزا فارم امریکی اور برطانوی ویزا فارم کی طرح غور سے پڑھ کر بھریں،اگر ہمیں مکمل ویزا فارم ملے تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم انڈیا کا ویزا نہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ موجود مودی حکومت آنے سے پہلے ستمبر2012اور2014میں پاک بھارت بات چیت کے دومرحلے کامیاب نہ ہوسکے،بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا وژن ہے کہ ساؤتھ ایشیا میں پائیدار امن کے ساتھ ساتھ تجارتی راہداری میں اضافہ ہو اوردونوں ممالک کے سیکریٹریز خارجہ کے مابین بات چیت خوش آئند قدم ہے،واہگہ ،اٹاری بارڈر پر تجارت کی اجازت دی جائے گی جوبہتری کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

انکا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تاجر برابری کی بنیاد پر تجارت کریں،پاکستان اور بھارت میں تجارت بڑھنی چاہیئے،چائنا کے ساتھ 2001-02میں بھارت کی تجارت پاکستان جتنی تھی لیکن اب چائنا کے ساتھ تجارت100ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ بھارت کی تجارت صرف2ارب ڈالر پر ہی رکی ہوئی ہے لیکن اس تجارتی حجم کو بڑھنا چاہیئے اسی طرح دونوں ممالک میں اعتماد کی فضاء بہتر ہوسکی ہے۔

کورنگی ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ڈاکٹر ٹی سی اے راگھون نے کہا کہ پاک بھارت تجارتی لین دین مشرقی اور مغربی پنجاب کے علاوہ کھوکھراپار، مونابھاوزمینی راستے سے کیے جانے سے فریٹ چارجز میں کمی رونماہوگی ،پاکستان اوربھارت کے مابین تجارتی لین دین میں خسارے کی بجائے تجارت کوبڑھانے پرتوجہ مرکوز کرنی چاہیے, بھارت کی جی ڈی پی کی افزائش سال 2002 تا 2009 کے دوران 7 فیصد تک رہی اور اسے برقراررکھنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت فروٹ اینڈ فروٹ پروسیسنگ انڈسٹری پر بھرپورتوجہ مرکوز کرسکتے ہیں جسکا اندازہ میرپورخاص میں لگائے گئے آم فیسٹول میں بھارتی درآمدکنندگان کی شرکت سے لگایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اوربھارتی وزیراعظم دونوں ممالک کی معیشت کو فاسٹ ٹریک پر جاری رکھنے کی خواہش کااظہارکرچکے ہیں اب ہماری خواہش یہ ہونی چاہیے کہ پاک بھارت رشتوں کی اخبارات میں سرخیاں گیس پائپ لائن اور دیگر اہم منصوبوں کی زینت بنے۔

متعلقہ عنوان :