ملک میں سائبر کرائم میں اضافہ ، جنسی تعلقات کیلئے لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیو انٹر نیٹ پراپ لوڈ کرکے بلیک میل کیا جانے لگا، کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ‘قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش‘ سائبر کرائم کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکام

اتوار 15 مارچ 2015 19:49

ملک میں سائبر کرائم میں اضافہ ، جنسی تعلقات کیلئے لڑکیوں کی غیر اخلاقی ..

جیکب آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 مارچ۔2015ء) ملک میں سائبر کرائم میں اضافہ ، جنسی تعلقات کے لیے لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیو انٹر نیٹ پراپ لوڈ کرکے بلیک میل کیا جانے لگا، کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوگئیں،قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموش، سائبر کرائم کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکام۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق ملک میں سائبر کرائم میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے، ملک میں سائبر کرائم کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات نظر نہیں آرہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، ملک بھر میں ایسے کئی واقعات روز کا معمول بن چکے ہے کہ شریف اور گھریلوں لڑکیوں کی غیر اخلاقی ویڈیو اور تصاویریں بنا کر انہیں جنسی تعلقات کے لیے بلیک میل کیاجاتا ہے انکار کرنے والی لڑکیوں کی غیر اخلاقی اور فحاش ویڈیوزاور تصاویر یں جعلی آئی ڈیز کے ذریعے سماجی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کی جاتی ہے جس کی وجہ سے کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ ہوگئی ہیں جبکہ ملک میں ایسے بھی واقعات رونما ہوئے ہیں کہ لڑکیوں نے فحش ویڈیو اور تصاویریں آنے کے بعد خودکشی بھی کرلی ہے ،ملک میں ایسے خطرناک واقعات کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی ہے ، حکومت کی جانب سے موبائل سموں کی تو تصدیق کی جارہی ہے مگر سماجی رابطوں کی جعلی آئی ڈیز کی تصدیق کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی جارہی ،جیکب آباد میں بھی ایک شریف گھرانے کی غیر اخلاقی ویڈیو اور تصاویریں سماجی ویب سائیٹ پر اپ لوڈ کی گئی ہیں جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان سخت پریشانی کا شکار ہیں ، جعلی آئی ڈیز کے ذریعے شریف خاندانوں کو تنگ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں گئے ہیں، سماجی تنظیم ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کے رہنما حماد اللہ انصاری نے کہا کہ پاکستان میں انٹر نیٹ کے استعمال میں جس طرح تیزی آرہی ہے اس کے غیر ضروری استعمال پر پابندی کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ جعلی آئی ڈیز کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے مگر افسوس ہے کہ پاکستان میں قانون سازی کے لیے منتخب نمائندے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔