پاکستان میں 40فیصد آبادی غذائی کمی کا شکار ہے،ماہرین

پیر 30 مارچ 2015 16:49

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30مارچ۔2015ء) پاکستان میں 40فیصد آبادی غذائی کمی کا شکار ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کی کمی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ پاکستان سمیت دنیا میں ہر سال 30ملین افراد غذائی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور دنیا کی 60فیصد آبادی فولاد اور دیگر وٹامنز کی کمی کا شکار ہے جس کی وجہ سے صحت کے ساتھ ساتھ کم خوراکی جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔

ان مسائل پر قابو پانے کے لئے سائنسدانوں کو غذائی اجناس میں مائیکرونیوٹریئنٹس شامل کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا ورنہ آنے والی نسلوں کے اپاہج ہونے اور دنیا بھر میں غذائی عدم استحکام کے شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اُردو آن لائن کے مطابق سائنسدانوں اور ماہرین نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ ایگرانومی کے زیراہتمام دو روزہ بین الاقوامی ورکشاپ برائے بائیوفورٹیفیکیشن آف سٹیپل کراپ و غذائی کمی کا تدارک کے افتتاحی اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

تقریب کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کی جبکہ مہمانان اعزاز میں ایف سی کالج کے سائنسدان کوثر عبداللہ ملک اور برطانوی یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے پروفیسر ڈاکٹر مارٹن آربراڈلی شامل تھے۔ شعبہ ایگرانومی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سردار عالم چیمہ نے کہا کہ ہر سال دنیا کی 30فیصد آبادی زنک جبکہ 30فیصد آبادی آئیوڈین کی کمی کا شکار ہے جو کہ ماہرین کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے ۔

ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے کہا کہ دنیا بھر میں لوگوں کو غذائی عناصر کے بارے میں بھرپور آگاہی دی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک عام آدمی ان چیزوں سے واقف نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زرعی سائنسدانوں اور فوڈ ماہرین کو غذائی اجناس میں ان عناصر کی ملاوٹ کا اہتمام یقینی بنانے کے لئے ایک لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا جسے اپنا کر ملک کی وسیع آبادی کو غذائی کمی اور بیماریوں سے محفوظ رکھا جا سکے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 56فیصد آبادی آئرن کی کمی کا شکار ہے جس پر فوری طور پر قابو پانے کے حوالے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اس موقع پر برطانوی یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے پروفیسر ڈاکٹر مارٹن آربراڈلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی جامعات میں فصلوں کے ذریعے غذائی کمی پر قابو پانے کے لئے مختلف اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں جس کے مثبت نتائج سے خطے کے ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے روشنی کی کرن حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں مائع زنک اور سلینیم کو بطور خاص اس مقصد کے لئے استعمال کر کے پاکستانی فصلات کو طاقتور اجزاء سے ہمکنار کرنے پر توجہ دینا ہو گی۔ ڈین کلیہ زراعت پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد نے کہا کہ فوڈ سکیورٹی ان دنوں پاکستان سمیت دنیا کے مختلف خطے کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے جسے پورا کرنے کے لئے زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ غذا کی کوالٹی بہتر بنانے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ لازمی مائیکرو نیوٹریئنٹس حقیقی انداز میں بائیولوجیکل ذرائع سے بہم پہنچا کر غذائی استحکام کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ شعبہ ایگرانومی کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر احسان اللہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس دو روزہ بین الاقوامی ورکشاپ کے ذریعے جہاں دنیا کے مختلف سائنسدانوں اور ماہرین کو ایک چھت کے نیچے بیٹھ کر اس اہم ترین موضوع پر فکری کاوشیں بروئے کار لانے کے مواقع میسر آئے ہیں وہاں یونیورسٹی کے طلباوطالبات اور سائنسدانوں کو دنیا بھر میں ہونے والی جدید پیش رفت سے آگاہی کے لئے بھرپور مواد حاصل کرنے میں کامیابی مل سکے گی۔ تقریب سے ڈاکٹر عبدالرشید، ڈاکٹر لیمنٹ اوزطر، منور حسین، ڈاکٹر قادر بخش بلوچ و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ عنوان :