تھائی مارشل لاء کا خاتمہ مارشل لاء سے بدتر

جمعرات 2 اپریل 2015 21:49

بنکاک(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 اپریل۔2015ء)تھائی فوج نے کئی مہینوں سے نافذ مارشل لاء کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا ہے، ناقدین اسے نظر کا دھوکا قرار دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے تنبیہ کی ہے کہ نئے سکیورٹی اقدامات سے تھائی فوج کی طاقت پر گرفت کمزور نہیں ہو گی۔ تھائی لینڈ میں گزشتہ دس مہینوں سے حکمران فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا اور کل بدھ یکم اپریل کو رات گئے ملکی دارالحکومت بنکاک میں فوج کے سربراہ پرایْت چان اوچا نے اعلان کیا تھا کہ یہ مارشل لاء باقاعدہ طور پر اٹھا لیا گیا ہے۔

اس جنوب مشرقی ایشیائی ریاست میں مارشل لاء شروع سے ہی ایک متنازعہ قانون تھا اور بنکاک کے مغربی اتحادی ملکوں نے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ یہ مارشل لاء ختم کیا جائے۔

(جاری ہے)

اب کہنے کو یہ مارشل لاء تو ختم کر دیا گیا ہے لیکن ایک ایسا سرکاری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے، جس کے تحت فوج اور موجودہ حکومت کے سربراہ چان اوچا کو حاصل غیر معمولی اختیارات آئندہ بھی ان کے پاس ہی رہیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حکم نامہ فوج ہی کے تیار کردہ عبوری آئین کی بہت متنازعہ شق نمبر 44 کے تحت جاری کیا گیا ہے، جو فوجی سربراہ چان اوچا کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کے نام پر کوئی بھی حکومتی فیصلہ کر سکتے ہیں۔اب صورت حال یہ ہے کہ تھائی لینڈ میں پانچ سے زائد افراد کی کسی بھی سیاسی اجتماع پر تاحال پابندی ہے۔ اس کے علاوہ فوج کو مسلسل یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شہری کو گرفتار کر کے اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو فوج کے مطابق قومی سلامتی کے خلاف جرائم کا مرتکب ہوا ہو یا جس نے تھائی بادشاہت کی توہین سے متعلق بہت سخت ملکی قوانین کی کسی بھی صورت میں خلاف ورزی کی ہو۔

فوجی سربراہ کے جاری کردہ اور مارشل لاء کے متبادل نئے سرکاری حکم نامے میں بظاہر ملکی میڈیا کے خلاف سنسرشپ بھی سخت کر دی گئی ہے۔ اب تھائی فوج کو یہ اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ ایسی خبروں کی اشاعت اور ان کے الیکٹرانک میڈیا پر نشر کیے جانے کو روک سکتی ہے، جنہیں فوج ’مسخ شدہ معلومات یا خوف پیدا کرنے کا باعث‘ سمجھتی ہو۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے کہا ہے کہ بنکاک میں فوجی حکمرانوں نے اپنے لیے جن نئے اختیارات کا فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل ’باقاعدہ مارشل لاء سے بھی زیادہ سخت قوانین‘ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تھائی فوج کے اس اقدام پر انہیں اس لیے تشویش ہے کہ یوں موجودہ وزیر اعظم کو ایسے لامحدود اختیارات دے دیے گئے ہیں، جن پر ملکی عدلیہ کسی بھی طرح نظر نہیں رکھ سکے گی۔امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن کو تھائی لینڈ میں فوج کے فیصلوں پر تشویش ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ تھائی شہریوں کے خلاف مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت کا سلسلہ ختم کیا جائے۔

اس کے ساتھ ہی مبینہ ملزمان کے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قید میں رکھے جانے کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے اور عام شہریوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکیں۔ اسی طرح کئی تھائی تجزیہ کاروں نے بھی یہی کہا ہے کہ ملک میں قانونی حوالے سے سب کچھ پہلے ہی کی طرح ہے، بس مارشل لاء کا نام بدل دیا گیا ہے۔ بنکاک میں فوجی حکومت نے اپنے نئے اقدامات پر ملک کے اندر اور باہر سے کی جانے والی شدید تنقید کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے قانونی فیصلے ’امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری‘ تھے۔

نائب وزیر اعظم پراوِت وَونگسْووان نے صحافیوں کو بتایا، ”ہم یہ کیسے جان سکتے ہیں کہ آنے والے کل کے دن ملک میں کیا کچھ ہونے والا ہے، جب کہ ہم ابھی تک بری طرح تقسیم کا شکار ہیں۔ اس تقسیم کے خاتمے کے لیے ہمیں ان قوانین کی ضرورت ہے۔“