پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے محکمہ ڈاک کو مخصوص نجی پرنٹنگ پریس سے پوسٹ کارڈ و دیگر سٹیشنری چھپوانے کا اختیار دینے کے حوالے سے ای سی سی کے فیصلے پر قانون و انصاف ڈویژن سے رائے مانگ لی

این آر او کے بعد کرپشن کی نئے سرے سے تعریف کرنا پڑیگی، محکمہ ڈاک میں 18لاکھ 36ہزار روپے کی کرپشن ہوئی، حکام نے 45ہزار روپے وصول کر کے بقیہ رقم معاف کر دی، اگر ملک کو اسی طرح چلانا ہے تو بہتر ہو گا پاکستان کو ٹھیکے پر دے دیں، محمود اچکزئی کا اظہار خیال

جمعہ 15 مئی 2015 17:50

یاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 مئی۔2015ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے محکمہ ڈاک کو مخصوص نجی پرنٹنگ پریس سے پوسٹ کارڈ و دیگر سٹیشنری چھپوانے کا اختیار دینے کے حوالے سے ای سی سی کے فیصلے پر قانون و انصاف ڈویژن سے رائے مانگ لی، پی اے سی کے رکن محمود خان اچکزئی نے کہا کہ این آر او کے بعد کرپشن کی نئے سرے سے تعریف کرنا پڑے گی، محکمہ ڈاک میں 18لاکھ 36ہزار روپے کی کرپشن ہوئی جبکہ حکام نے 45ہزار روپے وصول کر کے بقیہ رقم معاف کر دی، اگر ملک کو اسی طرح چلانا ہے تو بہتر ہو گا، پاکستان کو ٹھیکے پر دے دیں۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنوینئر رانا افضال احمد کی زیرصدارت منعقد ہوئے جس میں وزارت مواصلات یعنی پاکستان پوسٹ آفس اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے 1996-97 کے متعدد آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے آڈٹ اعتراض میں کہا گیا کہ 1995-96 میں جی پی او کراچی میں 18لاکھ36ہزار روپے کا فراڈ ہوا، جس پر سیکرٹری مواصلات شاہد اشرف تارڑ نے کہا کہ مذکورہ فراڈ میں جی پی او کے پانچ ملازمین ملوث پائے گئے جبکہ ایک کو برطرف کر کے 45ہزار روپے کی وصولی کی گئی، اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے رکن محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کیا شاندار کارکردگی ہے کہ 18 لاکھ 36 ہزار رپے کا فراد 45ہزار روپے وصولی کر کے دبا دیا گیا، اگر ملک کو ایسے چلانا ہے تو ٹھیکے پر دینا بہتر ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ویسے بھی پاکستان میں این آر او کے بعد کرپشن کی نئے سرے سے تعریف کرنے کی ضرورت ہے۔ پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے معاملہ مزید غور کیلئے آئندہ اجلاس تک ملتوی کر دیا۔ نیز آڈٹ حکام نے متعدد آڈٹ اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ 1995-96 میں محکمہ ڈاک نے ایک نجی کمپنی(پوسٹل فاؤنڈیشن) کو سٹیشنری کی چھپائی کا ٹھیکہ دیا جبکہ اس میں نہ تو ٹینڈر جاری ہوااور نہ ہی قواعد و ضوابط پر عمل کیا گیا۔

اس پر یکرٹری مواصلات شاہد اشرف تارڑ نے کہا کہ محکمہ ڈاک نے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کیمٹی کے فیصلے کے تحت پوسٹل فاؤنڈیشن کو سٹیشنری کی چھپائی کا ٹھیکہ دیا جبکہ اس کے نرخ سیکیورٹی پرنٹنگ پریس کراچی سے کم تھے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ای سی سی کے فیصلے کے باوجود اخبارمیں ٹینڈر شائع کرنا ضروری تھا۔ جس پر ذیلی کمیٹی نے قانون و انصاف ڈویژن سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔

علاوہ ازیں پی اے سی نے آڈیٹر جنرل کی جانب سے اٹھایا گیا اعتراضات کہ محکمہ ڈاک نے 1995-96 میں ایک پارلیمانی سیکرٹری کو فراہم کی گئی سرکاری گاڑی کیلئے پٹرول کی مد میں 2 لاکھ 86ہزار روپے غیر قانونی طور پر جاری کیا۔ مذکورہ اعتراض پر سیکرٹری مواصلات نے کہا کہ انکوائری میں یہ بات ثابت نہیں ہوئی جس پر ذیلی کمیٹی نے آڈٹ اعتراض ختم کر دیا۔ علاوہ ازیں پی اے سی کی ذیلی کمیٹی نے محکمہ ڈاک اور این ایچ اے کے حوالے سے اٹھائے گئے متعدد آڈٹ اعتراضات کرپشن کی رقم واپس ملنے پر ختم کر دیئے۔