اسلام آباد،بین الاقوامی این جی او اور فوکس کی جانب سے سیمینار کا انعقاد

پاکستان کی نصف آبادی زلزلہ زون ، دیگر حصے سیلاب، مون سون و دیگر قدرتی آفات کی زد میں آنے کا انکشاف

بدھ 27 مئی 2015 22:18

اسلام آباد،بین الاقوامی این جی او اور فوکس کی جانب سے سیمینار کا انعقاد

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27 مئی۔2015ء) پاکستان کی نصف آبادی زلزلہ زون پر مقیم جبکہ دیگر آبادی کے متعدد حصے سیلاب، مون سون و دیگر قدرتی آفات کی زد میں آنے کا انکشاف ہوا ہے ۔ بین الاقوامی این جی او اور فوکس کی جانب سے بدھ کے روز اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ پاکستان ایک ایکٹو سمپک زون کے اندر واقع ہے اور اس کی پچاس فیصد سے زائد آبادی زلزلہ کے شدید خطرے والے علاقے میں قیام پذیر ہے مزید برآں پاکستان کو مون سون کے موسم میں سیلاب کا خطرہ رہتا ہے مگر بدقسمتی سے قدرتی آفات کی زد میں رہنے والے ملک کے طور پر اس ملک میں متعدد سکولوں اور تعلیمی اداروں کی عمارات تحفظ کے ان معیارات پر پورا نہیں اترتی جو کہ قدرتی آفات کے دوران تحفظ کیلئے ضروری ہیں اگرچہ پاکستان کو درپیش خطرات میں سونامی ، سائیکلون ، سیلاب اور زلزلے کو پاکستان کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ فریم ورک میں شامل کیا گیا ہے مگر سکولوں کو محفوظ بنانے کیلئے ابھی تک کوئی خاص اقدامات عمل میں نہیں لائے گئے ۔

(جاری ہے)

عمران یوسف شامی ،کنٹری پروگرام منیجر پلان انٹرنیشنل پاکستان نے کہا ہے کہ سکولوں کے تحفظ کا خیال اگرچہ پاکستان میں نیا ہے تاہم اس پر ہنگامی بنیادوں پر عمل کیا جانا بہت ضروری ہے سکول کے بچوں اور عملے کے تحفظ کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ عمران یوسف شامی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ بچے ہمارا اہم ترین اثاثہ ہیں اور معاشرے میں یہ خطرات کی زد میں رہنے والے افراد میں سرفہرست ہیں گزشتہ سالوں کے دوران قدرتی آفات سے آنے والی تباہی اس امر کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ابھی تک محفوظ سکولوں کیلئے کوئی قابل قدر کارکردگی سامنے نہیں آئی 2005ء کے زلزلے نے ہمارا تعلیمی نظام پر گہرے اثرات ڈالے جس میں سکولوں میں 17ہزار طلباء و طالبات اور 9 سو اساتذہ وفات پا گئے اور پچاس ہزار شدید زخمی ہوئے بچ جانے والے بہت سے افراد معذور ہوگئے اور دس ہزار سکولوں کی عمارات تباہ ہوگئیں مجموعی طور پر تین لاکھ بچے متاثر ہوئے جبکہ بعد اضلاع میں 80فیصد سکول تباہ ہوگئے ۔

2007ء میں شدید ترین سیلاب کی بدولت تین لاکھ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے اور تقریباً پچیس لاکھ افراد ان سے متاثر ہوئے جبکہ 2010ء کے تباہ کن سیلاب میں پاکستان بھر میں دس ہزار سکولوں کو نقصان پہنچا جس سے 35لاکھ بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اس طرح سے سندھ میں 2011ء کے سیلاب میں تقریباً 60فیصد سرکاری سکولوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا جس سے پانچ سے سترہ سال کی عمر کے بچے خصوصاً لڑکیوں کی سکول میں حاضری میں خطرناک حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے پلان انٹرنیشنل کے بارے میں 75سال قبل قائم ہونے والا پلان دنیا کا سب سے پرانا اور بڑا ادارہ ہے جو بچوں کے نقطہ نظر سے سماجی ترقی کا کام کررہا ہے پلان افریقہ ، ایشیا اور امریکہ کے 50ترقی پذیر ممالک میں بچوں کے حقوق کے فروغ اور لاکھوں بچوں کو غربت کے دائرے سے نکالنے کیلئے کام کررہا