نامعلوم فائر نے پولیس اور مرتضیٰ بھٹو کا فائرنگ کا مقابلہ کرایا ، ، مرتضیٰ کے مسلح ساتھیوں میں ” را “ کے بعض تربیت یافتہ لوگ تھے ، بے نظیر کوشبہ تھا مرتضیٰ کا قتل فاروق لغاری ا ور خفیہ ایجنسیوں نے مل کر کرایا، لغاری آصف زردرای کو ملوث قرار دیتے رہے ، سابق وزیراعظم نے مرتضیٰ کو گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا تھا ، ایم کیوایم کے را کے ساتھ رابطوں کے خود ثبوت دیکھے ہیں ، ٹارگٹ کلرز بھارت سے تربیت لے کر آتے ہیں ، ملک ریاض کا دعویٰ ہے کہ ارسلان افتخار پر 40کروڑ خرچ کئے ، مگر صرف ساڑھے 3کروڑ ثابت کرسکے ، آئی بی کے 50کروڑ روپے کے غائب ہونے کی تحقیقات ہونی چاہئیں ،آئی بی کے سابق سربراہ شعیب سڈل کے ٹی وی انٹرویومیں انکشافات

بدھ 22 جولائی 2015 22:36

نامعلوم فائر نے پولیس اور مرتضیٰ بھٹو کا فائرنگ کا مقابلہ کرایا ، ، ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22 جولائی۔2015ء) انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ اور سابق ٹیکس محتسب شعیب سڈل نے انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی صحیح طریقے سے تحقیقات نہیں کی گئیں ، مرتضیٰ بھٹو کے مسلح ساتھیوں میں بعض ” را “ کے تربیت یافتہ لوگ بھی تھے ، سابق وزیراعظم نے حکم دیا تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کو گرفتار نہیں کرنا ، بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کا کہنا ہے کہ انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار پر 40 کروڑ روپے خرچ کیے تاہم تحقیقات میں ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کرنا ثابت ہوا ۔

انہوں نے یہ بات ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی ۔ 1993ء کے کراچی آپریشن ، مرتضیٰ بھٹو کے قتل کیس اور ارسلان افتخار کیس کی تحقیقات کے اہم کردار ڈاکٹر شعیب سڈل نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ مرتضی بھٹو اپنے مسلح ساتھیوں کو چھڑانے کیلئے تھانے میں گئے تھے ، ان کے بعض ساتھیوں میں ”را“ کے ایجنٹس بھی شامل تھے ، میں نے ان مسلح ساتھیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی اس وقت بات ہوئی تھی اور انہوں نے یہ حکم دیا تھا کہ مرتضی بھٹو کو گرفتار نہ کریں اور باقی لوگوں کو اگر ان کے بارے میں کوئی شواہد موجود ہیں تو انہیں گرفتار کیا جائے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مرتضیٰ بھٹو کے واقعہ کی پلاننگ میں میں شامل نہیں تھا مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کی صحیح طرح سے تحقیقات بھی نہیں ہوئیں اور اس میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ، سابق صدر سردار فاروق احمد خان لغاری یہ چاہتے تھے کہ اس کیس میں آصف علی زرداری کا نام بھی شامل کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ نامعلوم فائر نے پولیس اور مرتضیٰ بھٹو کا فائرنگ کا مقابلہ کرایا جس کی زد میں آکر مرتضیٰ بھٹو جاں بحق ہوگئے ، انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ پہلی گولی کس نے چلائی اور پہلی گولی کے چلنے کی درست طریقے سے تحقیق نہیں ہوئی اورمرتضٰی بھٹو کو4 گولیاں لگی تھیں ، انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا ، ہسپتال میں ڈاکٹرز موجود نہیں تھے اور اسی دوران مرتضیٰ بھٹو جاں بحق ہوگئے اور یہ رات قریب ساڑھے گیارہ سے 12 بجے کا وقت تھا ۔

ایک سوال پر شعیب سڈل نے کہا کہ اس بات کی پوری تحقیقات ہونی چاہئیں تھی کہ پہلی گولی کہاں سے چلی اور کس نے چلائی ، میں نے جس پولیس آفیسر کو تحقیقات کی ہدایات دیں اسے چند دنوں بعد تبدیل کردیا گیا ، مرتضیٰ قتل کیس ایک واحد کیس ہے جس میں تین مقدمات درج ہوئے ، لندن اور پاکستان کی پوسٹمارٹم رپورٹ میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ انہوں نے کہا کہ لندن رپورٹ کے مطابق گولی نیچے سے اوپر کو لگی اور یہ بات ان کی بیٹی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ تمام لائٹس بند کردی گئی تھیں اور پورا سازشی ماحول بنا کر ان کے والد کو قتل کیا گیا ۔

شعیب سڈل نے کہا کہ اگر مرتضی بھٹو کو یہ پلاننگ نظر آرہی تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے گا تو نہیں واپس گھر چلے جانا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو یہ سمجھتی تھیں کہ مرتضی بھٹو کے قتل کے پیچھے ایجنسیز کا ہاتھ ہے اور یہ سب کچھ ان کی حکومت ختم کرنے کیلئے کیا گیا ، انہوں نے اس بات پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہا رکیا کہ انہوں نے وزیراعظم کی یہ بات مان کر غلطی کی کہ مرتضیٰ بھٹو کو گرفتار نہ کریں ، اگر وزیراعظم کا یہ حکم نہ مانتا اور مرتضیٰ بھٹو کو گرفتار کرلیا جاتا تو شاید وہ قتل نہ ہوتے جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد جب بے نظیر بھٹو اپنے شوہر آصف زرداری کے ہمراہ کراچی ایئرپورٹ پہنچی تو کیا آصف زرداری کی مونچھیں موجود تھیں تو شعیب سڈل نے کہا کہ میں مونچھوں کے بغیر آصف زرداری کو دیکھ کر حیران بھی ہوا تھا اور اس وقت ان کی مونچھیں نہیں تھیں ۔

انہوں نے کہا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ شک تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کا قتل ایجنسیوں اور سردار فاروق لغاری نے مل کر کرایا ہے اور ایسا ان کی حکومت گرانے کیلئے کیا گیا ہے جبکہ سردار فاروق لغاری کا یہ شبہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹو کا قتل آصف زرداری نے کرایا ہے ۔ شعیب سڈل نے کہا کہ ایم کیو ایم کے گرفتار افراد نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بھارتی خفیہ ایجنسی را سے تربیت لی ہے ، انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی حکومت میں 1997ء میں ایم کیو ایم کیلئے 75 کروڑ روپے دیئے تھے ، میں نے خود ایم کیو ایم کے بھارت سے روابط کے ثبوت دیکھے تھے ، فہیم کمانڈو نے 80 پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا ، راکٹ لانچر چلانے والے بھی بھارت سے تربیت یافتہ تھے ۔

کراچی آپریشن سے متعلق سوال پر شعیب سڈل نے کہا کہ جب کراچی میں ان کی تعیناتی کی گئی تو میں نے یہ کہا تھا کہ مجھے فری ہینڈ دیا جائے تب میں آپریشن کروں گا ، اس موقع پر ایوان صدر میں ایک اجلاس ہوا تھا جس میں سابق آرمی چیف وحید کاکڑ ، سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر بھی موجود تھے اور ان دونوں نے مجھے فری ہینڈ کی گارنٹی دی تھی ، ایم کیو ایم کراچی میں قتل و غارت گری میں ملوث رہی ہے اور ایم کیو ایم نے 270 پولیس اہلکاروں کو قتل کروایا ۔

1995ء میں جون کا مہینا کراچی میں پولیس کیلئے بہت خطرناک تھا ۔ کراچی میں امن کی خاطر یہ آپریشن کامیاب بنایا گیا اور آج تک لوگ اس آپریشن کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ یہ آپریشن پولیس نے کیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ میرے دفتر میں ایک ملازم ایم کیو ایم کا مخبر تھا جسے میں نے دفتر سے نکال دیا تھا ۔ ارسلان افتخار سے متعلق انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کا یہ دعویٰ تھا کہ انہوں نے ارسلان افتخار پر 40 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اور جب سپریم کورٹ نے یہ معاملہ مجھے تفتیش کیلئے بھجوایا تو ملک ریاض جو مدعی تھے وہ پیش نہیں ہورہے تھے جب انہیں یہ کہا گیا کہ توہین عدالت نہ کریں تو وہ پیش ہوئے مگر انہوں نے متعلقہ گواہوں کو دوبئی بھجوا دیا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک ریاض خود ٹیکس چور ہیں اور 119 ملین کا ٹیکس ادا نہ کرنے پر میں ان کو نوٹس بھیجا تھا ، 2008-9ء میں انٹیلی جنس بیورو کے 50 کروڑ روپے کے فنڈز غائب ہونے کے معاملے پر سوال پر سابق آئی بی چیف نے کہا کہ جب میں نے چارج سنبھالا تو ریکارڈ سے پتا چلا کہ آئی بی کے 50 کروڑ روپے غائب ہیں اور ریکارڈ میں یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ کہاں خرچ کیے گئے ہیں ، میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو صورتحال سے آگاہ کیا مگر انہوں نے اس کی تفتیش کرنے کیلئے کوئی ہدایات نہیں دیں ۔

ایک سوال پر شعیب سڈل نے کہا کہ مجھے سیاستدانوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل (ر) نصیر اللہ بابر مرحوم پسند ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آئی جی کو جب بھی صوبے میں تعینات کیا جائے تو اس کو تین سال کا وقت دیا جائے تو وہ حالات بہتر بنا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں کوئی بھی ایک واقع ہو جائے تو آئی جی کو ہٹا دیا جاتا ہے ۔