وزیر داخلہ پریس کانفرنس میں ایکشن پلان کے 11نکات کا ذکرگول کر گئے،عوامی تحریک

موجودہ حکمران بھی آپریشن میں ایک سال کی تاخیر کے ذمہ دار ہیں‘ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کا ردعمل

پیر 24 اگست 2015 22:08

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 اگست۔2015ء)پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے وفاقی وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہاکہ وزیر داخلہ نے قومی ایکشن پلان کے 20نکات میں سے 11نکات کا ذکر گول کر گئے جن کا تعلق براہ راست سول حکومت کی کاکردگی سے تھا ،عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری یہ سوال کر چکے ہیں کہ قومی ایکشن پلان اگر پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی ہے تو بتایا جائے یہ پالیسی آئینی یا قانونی کور سے محروم کیوں ہے؟ قومی ایکشن پلان آج بھی پارلیمانی APC کا محض اعلامیہ ہے۔

قوم فوجی عدالتوں کو دہشت گردی کے خاتمے کی امید سمجھتی ہے مگر حکمران آج کے دن تک ان کا ذکر بے دلی سے کرتے ہیں،قومی ایکشن پلان کے جن نکات پر اب تک عمل ہوا ن کا تعلق فوجی آپریشن اورفوج کے ماتحت کام کرنے والی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ہے حکومت ابھی تک اس حوالے سے اپنی سنجیدگی دکھانے میں ناکام رہی ہے ،مرکزی سیکرٹری اطلاعات ایم نور اﷲ نے پریس کانفرنس کے ردعمل میں کہا کہ وزیر داخلہ غیر محسوس انداز میں شکوہ کرتے نظر آئے کہ نیکٹا کے پاس جتنے وسائل ہونے چاہیئیں وہ اسے نہیں ملے بہتر ہوتا وہ یہ بھی بتاتے کہ وسائل کیوں نہیں مل رہے ؟چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس جواد ایس خواجہ بھی حال ہی میں یہ ریمارکس د ے چکے ہیں کہ قومی ایکشن پلان پر عمل کرنے والے اداروں کو حکومت نے اگر فنڈز نہیں دینے تو پھر انہیں بند کر دیا جائے ،انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت بھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو ایک سال تک تاخیر کا شکارکرنے کی ذمہ دار ہے ،اگر یہ تاخیر نہ ہوتی تو آج آپریشن ضرب عضب کے نتائج مختلف ہوتے ،مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے کہاکہ بیرونی فنڈنگ روکنے ،مدرسوں کی رجسٹریشن اور اصلاحات ،نصاب پر نظر ثانی،انٹرنیٹ پر انتہا پسندی کے فروغ کا خاتمہ ،فرقہ ورانہ مواد اور کتب کی تلفی ،فاٹا میں ریفارمز اور آئی ڈی پیز کی بحالی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی کارکردگی اور دلچسپی مایوس کن ہے ،انہوں نے کہاکہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کامیابی کا کریڈٹ صرف اور صرف فوج اور رینجرز کو جاتا ہے ،انہوں نے کہاکہ وفاقی وزیر داخلہ کا دہشت گردی کو ختم کرنے کے حوالے سے عزم اب عمل کے قالب میں ڈھلتے ہوئے نظر آنا چاہیے ۔

(جاری ہے)

مرکزی سیکرٹری اطلاعات نے کہاکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے اوپر دو سال کی مدت کی جو آئینی تلوار لٹکائی گئی ہے اسے ہٹایا جائے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک فوجی عدالتوں کو کام کرتے رہنا چاہیے ۔