تعلیم معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لاتی ہے اور معیشت کو بہتر بناتی ہے،چانسلر جاوید انوار

جمعرات 21 جنوری 2016 16:44

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21 جنوری۔2016ء) سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا ہے کہ ہمارا معاشرہ صحت، تعلیم، تہذیبی اقدار کے منافی اصولوں پر چل کرناقابلِ تلافی نقصان اٹھا چکا ہے۔عوامی رجحانات اور روییمعاشرے میں مثبت تبدیلیوں کی ضرورت کا احساس دلارہے ہیں۔موجودہ حالات تبدیلی کے متقاضی ہیں جس کے لیے ہمیں غفلت کے اندھیروں سے نکلنا ہوگا۔

سرسید احمد خان کی تعلیمات کی جتنی آج ہمیں ضرورت ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔آج ایک مرتبہ پھر ہم ذہنی خلفشار کا شکار ہو چکے ہیں اور اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کر پارہے ہیں جو ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ہمیں ا س الجھن سے نکلنا ہو گا۔انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور اس کا معیار بلند کرنے میں تعلیم بنیادی اور موثر کردار ادا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

تعلیم معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لاتی ہے اور معیشت کو بہتر بناتی ہے۔ تعلیم کے بغیر روشن مستقبل حاصل کرنے کی تمام تر کوششیں بیکار ہیں۔یہ بات انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحیکے اعزاز میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انھوں نے کہا کہ ہم نہ صرف سرسید کی تعلیمات و تربیت کو آگے لے کر چل رہے ہیں بلکہ ان کی سوچ و فکرکی رہنمائی میں فروغِ تعلیم کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لارہے ہیں۔ سرسید کی تصنیفات کا بغور مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کی تحریروں کو صحیح پس منظر میں دیکھنا اور پرکھنا ہو گا۔چانسلر جاوید انوار نے مہمان مقرر ابو سفیان اصلاحی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے معنوی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں۔

ہمیں روشنی اور رہنمائی وہیں سے ملے گی۔ ہم ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اورآپ سے مختلف شعبوں میں رہنمائی چاہتے ہیں۔چانسلر جاوید انوار نے اس موقع پر معروف ادیب و دانشور مرحوم محمد ذاکر علی خان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذاکر علی خان نے ذاتی مقاصد کو پسِ پشت رکھ کراداروں کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔انھوں نے ذاتی مفاد پر ہمیشہ اداروں کو ترجیح دی۔

وہ دوسرے لوگوں کو پروجیکٹ کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ملک کے نوجوان آگے بڑھیں اور ملک کی ترقی و بہتری میں فعال و موثر کردار ادا کریں۔وہ ایک اچھے دانشور اور محقق کے علاوہ ایک اچھے اسپورٹس مین بھی تھے ۔وہ نہ صرف دوستوں کے دوست تھے بلکہ دشمنوں کے بھی دوست تھے اور یہ وصف بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے کیونکہ اپنی انا کو مارنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے تشریف لائے ہوئے مہمان پروفیسرڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے کہا کہ سرسید کی تفسیر کے بارے میں مختلف قسم کی ر ائے اور خیالات کا اظہار کیا گیا مگر کسی نے بھی ان کی تفسیر کو سرے سے پڑھا ہی نہیں اور اگر پڑھا بھی تو اسے صحیح طور سے سمجھا نہیں۔قرآنیات کو برصغیر میں آگے بڑھانے میں شاہ ولی اللہ کا بہت بڑا کردار ہے اور سرسیداحمد خان، شاہ ولی اللہ سے فکری طور پر بہت متاثر تھے۔

آثار الصنادید میں انھوں نے شاہ صاحب اور ان کے فرزندوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ فکر و تدبر کے لحاظ سے سرسید احمد خان جنوبی ایشیاء کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔وہ جدید علوم کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور اردو کے فروغ کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ اینگلو اورینٹل کالج میں یہ تینوں شعبے موجود تھے۔وہ انگریزوں کے قریب ضرور تھے مگرانھوں نے اپنے اسلامی تشخص کو کبھی متاثر ہونے نہیں دیا۔

البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان کے دینی و ثقافتی تصور کو سیاق و سباق کے حوالے سے صحیح طور سے نہیں سمجھا گیا۔ اس موقع پر اموبا کے نائب صدر سید انور علی، جنرل سیکریٹری محمد ارشد خان، جوائنٹ سیکریٹری واصف نظر صدیقی، جوائنٹ سیکریٹری پبلسٹی تسنیم احمد، ایگزیکیٹو کمیٹی کے رکن محمد اعجازالیقین، رجسٹرر ممتازالامام و دیگر بھی موجود تھے۔ اختتام تقریب پر چانسلر جاوید انوار نے معزز مہمان کو سوونیئر بیگ پیش کیا۔

متعلقہ عنوان :